کروموسوم الیون

Immo Kahani
0


" کروموسوم الیون"



2007 تھا۔ کراچی کی سڑکیں ہولوگرافک اشتہارات سے جگمگا رہی تھیں اور اڑنے والی گاڑیاں آسمان پر چیونٹیوں کی طرح رینگ رہی تھیں۔ زندگی تیز رفتار اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ تھی، لیکن کچھ چیزیں اب بھی پرانی تھیں –
جینیسیس کارپوریشن کی جدید ترین لیب میں کام کرنے والی عائزہ ایک غیر معمولی جینیاتی انجینئر تھی، جس نے انسانی صلاحیت کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کے لیے اپنی زندگی کے دس قیمتی سال وقف کر دیے تھے۔
 اس کا تازہ ترین پروجیکٹ، جسے خفیہ طور پر "کروموسوم الیون" کا نام دیا گیا تھا، ایک انقلابی جین ایڈیٹنگ ٹول تھا جو انسانوں میں غیر معمولی ذہانت، جسمانی طاقت اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
عائزہ جانتی تھی کہ اس کی تخلیق دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گی۔ غربت اور بیماری ماضی کی باتیں بن جائیں گی، اور انسانیت ایک سنہری دور میں داخل ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے ایک گہرا خوف بھی محسوس ہوتا تھا۔ ایسی طاقت غلط ہاتھوں میں پڑ سکتی تھی، اور اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے تھے۔
ایک شام، لیب میں دیر تک کام کرنے کے بعد، عائزہ نے محسوس کیا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ سایوں میں ایک لمبا، دبلا پتلا شخص کھڑا تھا، جس کے چہرے پر ایک سرد مسکراہٹ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کون ہے۔ ریحان ملک، جینیسیس کارپوریشن کا سی ای او، ایک ایسا شخص جو اپنی بے رحم ambition اور دولت کی پیاس کے لیے جانا جاتا تھا۔


پروجیکٹ  کروموسوم الیون


"تم نے کیا بنایا ہے، عائزہ؟"
ریحان کی آواز میں ایک خطرناک سکون تھا۔
عائزہ نے گھبرا کر اپنا ٹیبلیٹ چھپانے کی کوشش کی جس میں "کروموسوم الیون" کا بلیو پرنٹ موجود تھا۔ "یہ صرف ایک تجرباتی پروجیکٹ ہے، مسٹر ملک۔ ابھی مکمل نہیں ہوا۔"
ریحان ہنسا۔ "مجھے بیوقوف مت سمجھو۔ میں جانتا ہوں کہ تم کس حد تک پہنچ چکی ہو۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس طاقت سے کتنا منافع کمایا جا سکتا ہے۔"
"یہ انسانیت کے لیے ہے، آپ کے منافع کے لیے نہیں!"
عائزہ نے احتجاج کیا۔
"انسانیت؟" ریحان نے تمسخر اڑایا۔ "تم واقعی اتنی معصوم ہو؟ دنیا ہمیشہ طاقتوروں اور کمزوروں میں بٹی رہی ہے۔ یہ صرف اس بات کو یقینی بنائے گا کہ طاقتور اور بھی طاقتور ہوں۔"
ریحان نے اپنے محافظوں کو اشارہ کیا، جنہوں نے عائزہ کو پکڑ لیا۔ اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ تعداد میں زیادہ تھے۔ ریحان نے اس کے ہاتھ سے ٹیبلیٹ چھین لیا اور اسکرین پر موجود کوڈ کو غور سے دیکھا۔
"افسوس کی بات ہے کہ تم اتنی ضدی ہو۔ تم ایک عظیم الشان مستقبل کا حصہ بن سکتی تھیں۔ اب، تم صرف ایک رکاوٹ ہو۔"
عائزہ کو لیب سے گھسیٹ کر ایک اندھیرے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ وہ بے بسی سے چیختی رہی، لیکن اس کی آواز دھاتی دروازے سے باہر نہیں جا سکی-
اگلے چند ہفتے عائزہ کے لیے اذیت ناک تھے۔ اسے مسلسل دباؤ ڈالا گیا کہ وہ "کروموسوم الیون" کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا طریقہ بتائے۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ ریحان کا مقصد کیا ہے، اور وہ اسے اپنی تخلیق کو ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔
اسی دوران، شہر میں افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں۔ جینیسیس کارپوریشن کے ایک خفیہ پروجیکٹ کے بارے میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں جو لوگوں کو "سپر ہیومن" میں تبدیل کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ پرجوش تھے، ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن دوسرے خوفزدہ تھے، ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچ رہے تھے جہاں امیر اور طاقتور مزید ناقابل تسخیر ہو جائیں گے۔
عائزہ کا ایک پرانا دوست، صحافی علی، ان افواہوں کی تحقیقات کر رہا تھا۔ وہ ہمیشہ سچائی کا متلاشی رہا تھا، اور اسے یقین تھا کہ جینیسیس کارپوریشن میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اپنی خفیہ ذرائع کی مدد سے، وہ عائزہ کے غائب ہونے اور "کروموسوم الیون" پروجیکٹ کے بارے میں جاننے میں کامیاب ہو گیا۔
علی نے خطرہ مول لیتے ہوئے جینیسیس کارپوریشن کی عمارت میں گھسنے کا فیصلہ کیا۔ جدید ترین سیکورٹی سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے، وہ لیب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جہاں عائزہ نے کام کیا تھا۔ وہاں، اسے تباہ شدہ سامان اور افراتفری کے آثار ملے۔ اسے یقین ہو گیا کہ عائزہ کو اغوا کر لیا گیا ہے۔


لیب میں تباہی 


اپنی تحقیقات جاری رکھتے ہوئے، علی کو ایک خفیہ زیر زمین لیب کا پتہ چلا۔ وہاں، اس نے خوفناک منظر دیکھا۔ ریحان ملک کپ کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں پر تجربات کر رہا تھا۔ رضا کار کرسیوں پر بندھے ہوئے تھے، ان کے جسم غیر معمولی تبدیلیاں ظاہر کر رہے تھے۔ کچھ مضبوط اور تیز ہو رہے تھے، لیکن دوسرے درد سے چیخ رہے تھے، ان کے جسم مسخ ہو رہے تھے۔
علی نے فوراً عائزہ کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ اسے ایک چھوٹے سے قید خانے میں بند پایا گیا۔ وہ کمزور اور زخمی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں اب بھی عزم کی چمک تھی۔
"علی! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ یہ بہت خطرناک ہے۔" عائزہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
"میں تمہیں بچانے آیا ہوں۔ اور اس سب کو روکنے کے لیے۔" علی نے جواب دیا۔
علی نے عائزہ کو آزاد کرایا، اور دونوں نے لیب سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن ریحان کے محافظوں نے انہیں دیکھ لیا۔ ایک شدید لڑائی شروع ہو گئی۔ علی، ایک صحافی ہونے کے باوجود، حیرت انگیز حد تک بہادر تھا، لیکن وہ تربیت یافتہ محافظوں کے مقابلے میں کمزور تھا۔
عائزہ جانتی تھی کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس نے علی کو ایک طرف دھکیلا اور ایک کنٹرول پینل کی طرف بھاگی۔ اپنی زخمی انگلیوں سے، اس نے تیزی سے کچھ کوڈ درج کیے۔
"تم کیا کر رہی ہو؟" علی نے پوچھا۔
"میں سب کچھ ختم کر رہی ہوں۔ اگر میں اسے استعمال نہیں کر سکتی، تو کوئی اور بھی نہیں کر سکے گا۔"
عائزہ نے آخری کوڈ درج کیا، اور پوری لیب میں ایک زوردار سائرن بج اٹھا۔ تجرباتی مضامین چیخنے لگے، اور مشینیں بے قابو ہو گئیں۔
ریحان ملک غصے سے چیختا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ "تم نے کیا کیا؟ تم میری کامیابی برباد کر رہی ہو!"
اسی لمحے، لیب میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ چھت گر گئی، اور ہر طرف ملبہ پھیل گیا۔ علی نے عائزہ کو کھینچ کر ایک طرف کیا، اور وہ بمشکل ہی موت سے بچ سکے۔


لیب میں دھماکہ 

جب دھواں چھٹا تو ریحان ملک ملبے تلے دبا ہوا نظر آیا۔ اس کا لالچ اور ambition آخر کار اس کی تباہی کا سبب بن گیا تھا۔
علی اور عائزہ بمشکل ہی لیب سے زندہ نکل پائے۔ انہوں نے دنیا کو ریحان کے خوفناک تجربات اور "کروموسوم الیون" کے خطرے کے بارے میں بتایا۔ اس انکشاف نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ جینیاتی انجینئرنگ کے اخلاقی پہلوؤں پر ایک نئی بحث چھڑ گئی، اور حکومتوں نے اس طرح کی تحقیق پر سخت قوانین نافذ کر دیے۔
عائزہ کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ اگرچہ "کروموسوم الیون" کا راز ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا تھا، لیکن اس کی کہانی ایک انتباہ بن گئی کہ طاقت کتنی خطرناک ہو سکتی ہے، اور انسانیت کو ہمیشہ اخلاقیات اور ذمہ داری کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔
اور کراچی کے آسمان پر اڑنے والی گاڑیاں اور ہولوگرافک اشتہارات اب بھی موجود تھے، لیکن ان کے نیچے ایک ایسی دنیا تھی جو ایک قیمتی سبق سیکھ چکی تھی۔ مستقبل روشن ہو سکتا تھا، لیکن صرف تب جب اسے انسانیت کے بہترین مفاد میں استعمال کیا جائے-

اخلاقی سبق:

عائزہ کی قربانی، اپنی تخلیق کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے لیب کو تباہ کرنا، ایک اہم اخلاقی سبق دیتی ہے کہ بعض اوقات بڑے مقصد کے لیے ذاتی قربانی دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !