"چھوٹی سی دعا اور اُس کا معجزہ"
رمشا گیا ر ہ سال کی ایک معصوم اور پیاری بچی تھی۔ اُس کی بڑی بڑی، چمکدار آنکھیں تھیں جن میں ایک خاص قسم کی ذہانت اور رحم دلی جھلکتی تھی۔ اُس کے گلابی گال ہمیشہ ایک دھیمی سی مسکراہٹ سے سجے رہتے تھے، جو اُس کے صاف دل کی عکاسی کرتے تھے۔ رمشا ایک غریب محلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے محنتی والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ اگرچہ اُن کے پاس دنیاوی آسائشیں زیادہ نہیں تھیں، لیکن رمشا کے دل میں ہمیشہ ایک روشن امید اور مثبت سوچ موجود رہتی تھی۔
![]() |
رمشا |
رمشا پڑھائی میں بہت ذہین اور چیزوں کو جلدی سمجھنے والی بچی تھی۔ اُس کے اساتذہ ہمیشہ اُس کی تعریف کرتے تھے اور اُسے ایک ہونہار طالب علم سمجھتے تھے۔ رمشا کو نئی چیزیں سیکھنے اور جاننے کا بہت شوق تھا، خاص طور پر کتابیں پڑھنے کا۔ وہ اکثر اپنی پرانی درسی کتابوں کو بار بار پڑھتی رہتی تھی اور اُس کے دل میں یہ خواہش رہتی تھی کہ کاش اُس کے پاس بھی رنگین تصویروں والی نئی کہانیاں اور دلچسپ ناول ہوں۔ اُسے نئے کھلونوں سے بھی بہت رغبت تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ اُس کے گھر کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ یہ سب چیزیں آسانی سے خریدی جا سکیں۔ اس بات کا اُسے کبھی کبھار دُکھ ضرور ہوتا تھا، لیکن وہ کبھی بھی ناشکری نہیں کرتی تھی۔
ایک دن جب رمشا سکول سے واپس اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی، تو اُس نے راستے کے کنارے ایک بوڑھے فقیر کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ فقیر بہت کمزور اور بیمار لگ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور اُس کی آنکھوں میں ایک درد بھری التجا تھی۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور اُس کے پاس ایک پرانا کشکول تھا۔ رمشا نے اُس کی حالت دیکھی تو اُس کا ننھا سا دل رحم سے بھر گیا۔ وہ رک گئی اور اُس فقیر کو غور سے دیکھنے لگی۔
![]() |
بوڑھا فقیر |
رمشا نے اپنی چھوٹی سی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اُسے صرف دس روپے کا ایک سکہ ملا۔ یہ وہ پیسے تھے جو اُس کی ماں نے اُسے سکول میں کچھ کھانے کے لیے دیے تھے۔ رمشا نے پہلے سوچا کہ وہ اِن پیسوں سے اپنے لیے ایک نئی پینسل خریدے گی، جس کی اُسے سکول میں ضرورت تھی۔ لیکن پھر اُس نے دوبارہ فقیر کی کمزور اور لاچار حالت دیکھی تو اُس کا دل پسیج گیا۔ اُس نے اپنی خواہش کو قربان کرتے ہوئے وہ دس روپے کا سکہ فقیر کے کشکول میں ڈال دیا۔
فقیر نے رمشا کی اس چھوٹی سی نیکی پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے کمزور ہاتھوں کو اُٹھا کر اُس کے لیے دُعائیں دیں۔ اُس نے کہا، "بیٹی، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر ضرور دے گا۔ تمہارا دل بہت نیک ہے اور اللہ نیک لوگوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔" رمشا نے فقیر کی دُعائیں سنیں اور ایک اطمینان محسوس کیا۔
جب رمشا گھر پہنچی تو وہ تھوڑی سی اُداس تھی۔ اُس کی ماں نے اُس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو پوچھا، "کیا ہوا بیٹا؟ آج تم اتنی پریشان کیوں ہو؟ کیا سکول میں کوئی بات ہوئی؟"
رمشا نے اپنی ماں کو ساری بات سچ سچ بتا دی۔ اُس نے بتایا کہ کس طرح اُس نے اپنے پیسے ایک ضرورت مند فقیر کو دے دیے اور اب اُس کے پاس نئی پینسل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
رمشا کی ماں نے اُس کی بات سنی تو اُن کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ اُنہوں نے رمشا کو پیار سے گلے لگایا اور کہا، "میری پیاری بیٹی، تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی نیک دل لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ یقین رکھو، اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیکی کا اجر تمہیں ضرور دے گا۔ ہمیں کبھی بھی کسی ضرورت مند کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔" ماں کی ان باتوں سے رمشا کو دلی سکون ملا۔
اُسی رات رمشا جب اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹی تو اُسے ایک عجیب و غریب خواب آیا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک نورانی چہرے والے بزرگ، جن کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ تھی، اُس کے پاس آئے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں ایک خوبصورت اور بڑا سا بیگ تھا جو رنگین کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ بزرگ نے رمشا کو پیار سے دیکھا اور کہا، "یہ تمہاری اُس نیکی کا انعام ہے جو تم نے آج کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی مدد ضرور کرتا ہے اور تمہارا یہ چھوٹا سا عمل اللہ کو بہت پسند آیا ہے۔"
جب رمشا کی آنکھ کھلی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اُس کے پاس وہی بیگ رکھا ہوا تھا جو اُس نے اپنے خواب میں دیکھا تھا۔ بیگ مختلف قسم کی دلچسپ کہانیوں اور رنگین تصویروں والی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن کتابوں کو دیکھ کر رمشا کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ فوراً اپنے بستر سے اُٹھی اور بھاگ کر اپنی ماں کو جگایا اور اُنہیں سب کچھ بتایا۔
![]() |
کتابوں سے بھرا ہوا بیگ |
رمشا کی ماں بھی یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوئیں اور اُن کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آ گئے۔ اُنہوں نے فوراً وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے اُن کی بیٹی کی چھوٹی سی نیکی کا اتنا بڑا اجر دیا۔
اُس دن سے رمشا ہر روز نئی نئی کہانیاں پڑھتی اور اُن کی رنگین تصویروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی۔ اُس کی معلومات میں اضافہ ہوا اور اُس کی تخیلاتی دنیا اور بھی وسیع ہو گئی۔ اُسے اب یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی تھی کہ ایک چھوٹی سی نیکی بھی کتنا بڑا معجزہ دکھا سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔
اخلاقی سبق:
نیک نیتی کا انعام ضرور ملتا ہے: فقیر کی دعا اور رمشا کی نیک نیتی رائیگاں نہیں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے اُس کی نیکی کا بہترین صلہ دیا۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اگر ہماری نیت صاف ہو اور ہم خلوص دل سے اچھے کام کریں تو اس کا اجر ہمیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملے گا۔