"روشنی کا سفر"
زینب، ایک ایسی نوجوان جس کی رگوں میں جستجو کی برقی رو دوڑتی تھی اور جس کا دل کائنات کے ان گنت پردوں کے پیچھے چھپے اسرار کو جاننے کے لیے ہر لمحہ بے قرار رہتا تھا۔ اس کی روح خاص طور پر روشنی کے سحر میں گرفتار تھی، وہ گھنٹوں اس کے بارے میں پڑھتی، اس کے خواص میں غوطہ زن رہتی۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ روشنی محض ایک بصری دھوکہ نہیں، ایک ایسا احساس جو آنکھوں کے پردوں پر نقش ہو جاتا ہے، بلکہ یہ تو توانائی کی ایک ایسی لطیف شکل ہے جو کبھی لہروں کی طرح رقص کرتی ہے اور کبھی ذرات کی طرح اپنا وجود منواتی ہے۔ اس کے ننھے ذہن کو یہ جان کر ایک گہرا تعجب ہوتا تھا کہ روشنی کی رفتار اس وسیع و عریض کائنات میں سب سے تیز ہے، ایک ایسی حتمی حد جس سے آگے کوئی بھی شے قدم نہیں بڑھا سکتی۔
ایک تاریک شب، جب آسمان پر لاکھوں جگمگاتے ستارے کسی حسین قالین کی مانند بکھرے ہوئے تھے، زینب اپنی پرانی دوربین کو تھامے ان کی جانب محوِ نظارہ تھی۔
![]() |
آسمان پر بکھرے تارے اور دوربین |
اس کی چھوٹی سی پیشانی پر تفکر کی سلوٹیں نمودار ہو رہی تھیں، وہ سوچ رہی تھی کہ ان دور دراز ستاروں کی یہ روشنی، جو آج اس کی آنکھوں کو منور کر رہی ہے، کتنے برسوں پہلے ان کے قلب سے پھوٹی ہوگی اور کتنے طویل اور کٹھن راستوں سے گزر کر آج زمین پر پہنچی ہے۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ وقت کے دریچوں سے جھانک رہی ہو، ماضی کے کسی دور افتادہ لمحے کو اپنی نگاہوں میں قید کر رہی ہو۔اچانک، اس کے ذہن کے افق پر ایک روشن خیال نے جنم لیا۔
اس نے سوچا، اگر وہ ایک ایسی خیالی سواری تخلیق کر سکے جو روشنی کی مہیب رفتار کے قریب سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، کائنات کے کتنے ایسے راز ہوں گے جن سے وہ پردہ اٹھا پائے گی؟
کیا وہ وقت اور مکان کی ان الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا پائے گی جو ہمیشہ سے انسان کے تجسس کو مہمیز کرتی رہی ہیں؟
زینب نے اس خیال کو محض ایک خواب سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اسے حقیقت کے قالب میں ڈھالنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیں۔ اس نے اپنی فزکس کی کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کر چھان مارے، انٹرنیٹ کی وسیع دنیا میں تحقیق کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوئی اور اپنے سائنس کے شفیق استاد سے رہنمائی کے لیے رجوع کیا۔ کئی مہینوں کی انتھک محنت اور لگن کے بعد، اس نے ایک فرضی خلائی جہاز کا پیچیدہ ڈیزائن تیار کیا، جس کا نام اس نے اپنی روشن امیدوں اور سائنسی تخیل کی علامت کے طور پر "نورِ سفر" رکھا۔
اگرچہ یہ نورِ سفر ابھی صرف اس کے تخیل کے صفحات پر ہی موجود تھا، لیکن زینب نے اس کے ہر چھوٹے بڑے پہلو پر انتہائی باریک بینی سے کام کیا۔ اس نے پیچیدہ ریاضیاتی مساواتوں کی مدد سے یہ حساب لگایا کہ اس خیالی جہاز کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے کے لیے کتنی ناقابل یقین حد تک زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے تحت اس میں وقت اور فاصلے کا کیا عجیب و غریب اثر پڑے گا۔ اس نے آئن تھرسٹرز جیسے جدید تصورات کو اپنے ڈیزائن کا حصہ بنایا، جو برقی طور پر چارج شدہ ذرات کو خارج کر کے دھکا پیدا کرتے ہیں، اور طاقتور مقناطیسی فیلڈز کا استعمال کرنے کا تصور کیا تاکہ جہاز کو بین الستاروی ذرات اور تابکاری سے محفوظ رکھا جا سکے۔
![]() |
نور سفر کا خیالی جہاز |
زینب نے اپنے تخیل کی آنکھ سے دیکھا کہ جب نورِ سفر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گا تو وقت اس کے لیے کس قدر سست روی کا شکار ہو جائے گا، جبکہ کائنات کی وسیع دنیا میں وقت اپنی معمول کی رفتار سے گزرتا رہے گا۔ اس نے تصور کیا کہ وہ کئی نوری سال دور واقع ستاروں اور کہکشاؤں کا سفر کر سکے گی، ان اجنبی نظاموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گی جہاں شاید زندگی کی کوئی اور شکل موجود ہو۔ اس نے ان سیاروں کا تصور کیا جو اپنے سورج کے گرد محوِ گردش ہوں گے، جن کی فضا میں شاید وہ عناصر موجود ہوں جو زمین پر زندگی کی بنیاد ہیں۔
اپنے خیالی سفر کی وسعتوں میں، زینب نے نیبولا کے رنگین اور دلکش بادلوں کو دیکھا، جو ستاروں کی پیدائش گاہیں یا ان کی موت کے بعد کے ملبے کے شاندار نظارے پیش کرتے تھے۔ اس نے سپرنووا کے ان عظیم الشان دھماکوں کا تصور کیا، جب کوئی ضخیم ستارہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ایک ناقابل یقین حد تک روشن اور طاقتور دھماکے سے پھٹ جاتا ہے، کائنات میں بھاری عناصر بکھیر دیتا ہے۔ اور اس نے بلیک ہولز کی ان پراسرار کششوں کا مشاہدہ کیا، جہاں کشش ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ روشنی بھی اس کے دام سے فرار نہیں ہو سکتی، ایک ایسا نقطہ جہاں طبیعیات کے تمام جانے پہچانے قوانین دم توڑ دیتے ہیں۔ اس نے محسوس کیا کہ کائنات کتنی وسیع، کتنی حیرت انگیز اور کتنی پراسرار ہے۔
![]() |
حیرت انگیز کائنات |
اگرچہ زینب کا نورِ سفر ابھی صرف اس کے تخیل کی ایک پرواز تھی، ایک ایسا خواب جو اس نے اپنی سائنسی جستجو کی گہرائیوں میں دیکھا تھا، اس نے اسے روشنی اور کائنات کے بارے میں ان گنت قیمتی اسباق سکھائے۔ اس نے یہ گہرا ادراک حاصل کیا کہ سائنس ہمیں ناممکن کو ممکن بنانے کے حسین خواب دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے اور پھر ان خوابوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے انتھک محنت اور جدوجہد کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس نے سمجھا کہ کائنات کے رازوں کو جاننے کی پہلی شرط تجسس کی وہ شعلہ ہے جو ایک روشن ذہن میں ہمہ وقت فروزاں رہتا ہے اور تخیل کی وہ قوت ہے جو ہمیں ان حدود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے جو بظاہر ناقابل عبور دکھائی دیتی ہیں۔
اخلاقی سبق:
زینب کی یہ کہانی ہمیں ایک سادہ لیکن گہرا پیغام دیتی ہے کہ اگر ہم اپنے اندر سوال پوچھنے کی خواہش کو زندہ رکھیں اور نئے اور غیر روایتی خیالات پر غور کرنے سے نہ ہچکچائیں، تو ہم نہ صرف ناممکن کو ممکن بنانے کے خواب دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان خوابوں کو حقیقت کے رنگوں سے بھرنے کے لیے ایک واضح اور قابل عمل راستہ بھی تلاش کر سکتے ہیں۔