"پرانے لاہور کا معجزہ"
کہا جاتا تھا کہ روشنیوں کا مسافر رات کی تاریکی میں ظاہر ہوتا ہے، ایک ایسی چمک کے ساتھ جو نہ تو چاند کی تھی اور نہ کسی چراغ کی۔ وہ ان لوگوں کے گھروں کے باہر رکتا جن کی آنکھیں نم تھیں اور جن کے دلوں میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ کوئی آواز نہیں نکالتا تھا، کوئی دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا تھا، لیکن اس کی موجودگی ہی ایک عجیب سکون اور امید کی کرن لے آتی تھی۔
![]() |
لاہور کی تا ریکی را ت |
ایسے ہی ایک رات، پرانی انارکلی کی ایک بوسیدہ حویلی میں ایک نوجوان لڑکی، زارا، اپنے کمرے میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ اس کی شادی زبردستی ایک ایسے شخص سے طے کر دی گئی تھی جسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔ اس کا دل خوف اور بے بسی کے احساس سے بوجھل تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کی زندگی کی تمام خوشیاں چھین لی گئی ہوں۔
اچانک، اس نے اپنی کھڑکی کے باہر ایک مدھم سی روشنی محسوس کی۔ وہ ڈر گئی اور اپنی آنکھیں پونچھ کر کھڑکی کی طرف دیکھا۔ باہر گلی بالکل تاریک تھی، لیکن اس کی کھڑکی کے عین سامنے ایک ہلکی سی سنہری روشنی معلق تھی۔ یہ روشنی کسی شخص کی شکل میں نہیں تھی، بلکہ ایک نرم اور چمکدار ہالے کی طرح تھی۔
زارا خوفزدہ ہو گئی، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس روشنی سے اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ، اس کے دل میں ایک عجیب سا اطمینان اتر آیا۔ جیسے ہی اس نے اس روشنی کو دیکھا، اس کے آنسو تھم گئے اور اس کے اندر ایک خاموش امید جاگ اٹھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیا تھا، لیکن اسے محسوس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔
اگلی صبح، زارا اٹھی تو اس کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا محسوس ہوا۔ وہ اب بھی اپنی قسمت کے بارے میں پریشان تھی، لیکن اس رات کی روشنی نے اسے ایک نئی ہمت دی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموشی سے اپنی قسمت کے آگے سر نہیں جھکائے گی، بلکہ اپنی آواز اٹھائے گی۔
اسی رات، ایک اور شخص، ایک بوڑھا درزی جس کا بیٹا ایک حادثے میں فوت ہو گیا تھا، اپنی دکان میں اداس بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اسے لگ رہا تھا جیسے زندگی میں اب کوئی معنی باقی نہیں رہا۔ اچانک، اس نے اپنی دکان کے باہر ایک نرم سی روشنی دیکھی۔ وہ اٹھا اور باہر جھانکا۔ گلی اندھیری تھی، لیکن اس کی دکان کے سامنے ایک چمکدار ہالہ معلق تھا۔
بوڑھے درزی کو بھی زارا کی طرح کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ اس روشنی کو دیکھ کر اس کے دل میں اپنے بیٹے کی یاد اور بھی تازہ ہو گئی، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے ایک عجیب سا سکون بھی ملا۔ جیسے کسی نے خاموشی سے اس کے درد کو محسوس کیا ہو۔
اگلے دنوں میں، روشنیوں کے مسافر کی کہانیاں پورے لاہور میں پھیل گئیں۔ لوگ سرگوشیوں میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ کچھ اسے فرشتہ مانتے تھے، کچھ اسے کسی ولی کی روح کہتے تھے، اور کچھ اسے محض ایک وہم قرار دیتے تھے۔ لیکن جن لوگوں نے اسے محسوس کیا تھا، ان کے دلوں میں اس کے لیے ایک خاص جگہ بن گئی تھی۔
ایک رات، ایک نوجوان صحافی، علی، نے ان کہانیوں کے بارے میں سنا۔ وہ ایک عقلمند اور منطقی شخص تھا اور ایسی مافوق الفطرت باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ لیکن لوگوں کے چہروں پر اس روشنی کے ذکر سے آنے والی امید اور سکون کو دیکھ کر وہ تجسس میں پڑ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھائے گا۔
علی نے کئی راتیں پرانے لاہور کی گلیوں میں گزاری، ان لوگوں سے ملا جنہوں نے روشنیوں کے مسافر کو دیکھنے یا محسوس کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ہر ایک کی کہانی مختلف تھی، لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک تھی - اس روشنی کی موجودگی نے ان کے دکھ کو کم کیا تھا اور انہیں ایک نئی امید دی تھی۔
ایک رات، جب علی ایک ایسی حویلی کے پاس گھات لگائے بیٹھا تھا جہاں کچھ دن پہلے روشنی دیکھی گئی تھی، اس نے دور سے ایک مدھم سی چمک دیکھی۔ وہ تیزی سے اس طرف بڑھا، لیکن جیسے ہی وہ قریب پہنچا، روشنی غائب ہو گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔
![]() |
ڈ را ؤ نی حویلی |
علی مایوس ہو گیا، لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ تو ہے جو ان لوگوں کو اس قدر یقین دلا رہا ہے۔ اس نے اپنی تحقیق جاری رکھی۔
کئی ہفتوں بعد، اسے ایک پرانی کتاب ملی جس میں لاہور کے صوفی بزرگوں کے بارے میں لکھا تھا۔ اس کتاب میں ایک ایسے بزرگ کا ذکر تھا جو اپنی روحانی طاقت سے لوگوں کے دلوں میں امید کی روشنی بھر دیتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان کی روح آج بھی رات کی تاریکی میں ان لوگوں کی مدد کے لیے نکلتی ہے جو مصیبت میں گھرے ہوتے ہیں۔
علی کو یقین تو نہیں آیا، لیکن اس نے محسوس کیا کہ شاید یہی وہ 'روشنیوں کا مسافر' ہے جس کے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں۔ یہ کوئی مادی وجود نہیں، بلکہ ایک روحانی تسکین ہے جو دکھ میں مبتلا دلوں کو ملتی ہے۔
اس رات، علی ایک بار پھر اسی حویلی کے پاس گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے دل میں ان تمام لوگوں کے لیے دعا کی جو کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اس نے ان کے لیے سکون اور صبر کی التجا کی۔
جب اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، تو اسے کوئی روشنی نظر نہیں آئی، لیکن اس کے اپنے دل میں ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے وہ بھی اس پراسرار مسافر کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہو۔
روشنیوں کا مسافر شاید کبھی نظر نہیں آیا، لیکن اس کی کہانیاں لاہور کی گلیوں میں ہمیشہ زندہ رہیں۔ یہ کہانیاں ان لوگوں کے لیے امید کی کرن بن گئیں جو تاریکی میں بھٹک رہے تھے۔ یہ ایک یاد دہانی تھی کہ چاہے کتنی ہی مصیبتیں آئیں، کائنات میں کوئی ایسی طاقت ضرور موجود ہے جو خاموشی سے ہمارے درد کو محسوس کرتی ہے اور ہمیں تسلی بخشتی ہے۔
اور یوں، پرانے لاہور کی راتوں میں، روشنیوں کے مسافر کی سرگوشی آج بھی سنائی دیتی ہے - ایک ایسی سرگوشی جو دلوں کو جوڑتی ہے اور امید کی شمع روشن کرتی ہےـ
اخلاقی سبق:
اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ ہمدردی دکھائیں، امید قائم رکھیں، اور یقین رکھیں کہ مشکل وقت میں بھی کوئی نہ کوئی روشنی ضرور موجود ہوتی ہے، چاہے وہ کسی پراسرار مسافر کی صورت میں ہو یا ہمارے اپنے دلوں کی طاقت کی صورت میں۔
Bhout achi Kahani hy 🥰🥰🥰
ReplyDelete