پراسرار حویلی

Immo Kahani
1

 


"پراسرار حویلی"


ایک گہری، سیاہ رات تھی جب 28 سالہ عدنان کو ایک عجیب و غریب خط موصول ہوا۔ خط پر کوئی پتہ نہیں تھا، نہ ہی بھیجنے والے کا نام۔ بس ایک دھندلی سی مہر لگی تھی جس پر ایک پرانے طرز کی حویلی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ خط میں صرف اتنا لکھا تھا: "تمہیں انتظار ہے۔ آج رات، ٹھیک بارہ بجے۔ ویران حویلی، شہر کے کنارے۔"

عدنان، جو ایک ایڈونچر پسند مصنف تھا، اس پراسرار دعوت سے خوفزدہ ہونے کے بجائے، اس کے اندر ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔
وہ ہمیشہ سے مافوق الفطرت کہانیوں پر یقین رکھتا تھا اور اسے لگا کہ شاید یہ اس کے اگلے ناول کا موضوع بن سکتی ہے۔ اس نے اپنی چھوٹی سی ڈائری اور قلم پکڑا، اور بغیر کسی کو بتائے، اپنی پرانی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر شہر کے ویران کنارے کی طرف چل پڑا۔

شہر کی آخری عمارتوں کو پیچھے چھوڑتے ہی، سڑک کچی اور تاریک ہوتی چلی گئی۔ چاروں طرف درختوں کا گھنا جنگل تھا اور دور کہیں الو بول رہے تھے۔ خوف اور تجسس کا ایک عجیب ملا جلا احساس عدنان کے دل میں گھر کر گیا تھا۔ آخر کار، ایک کچے راستے پر مڑتے ہی اسے دور ایک سایہ نظر آیا۔ یہ وہی حویلی تھی جو خط پر بنی ہوئی تھی۔


پراسرار حویلی 

حویلی بہت پرانی اور خستہ حال تھی، اس کی دیواروں پر کائی جمی ہوئی تھی اور کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ بظاہر ایسا لگتا تھا جیسے اسے کئی سالوں سے کسی نے ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ حویلی کے مرکزی دروازے پر ایک بڑا سا لوہے کا تالا لگا ہوا تھا، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ عدنان نے دھیرے سے دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھا۔

اندر داخل ہوتے ہی اسے ایک سرد ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ حویلی کے اندر ہر طرف گہرا اندھیرا تھا اور ہوا میں ایک عجیب سی بوسیدگی اور پرانی کتابوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی تو سامنے ایک وسیع ہال نظر آیا جس میں دھول سے اٹی پرانی فرنیچر اور ایک بڑا جھومر لٹکا ہوا تھا۔ جھومر کے کچھ کرسٹل ٹوٹے ہوئے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی گر جائیں گے۔

عدنان نے احتیاط سے قدم آگے بڑھائے۔ اس کی نظریں ہر کونے کو تلاش کر رہی تھیں، جیسے کسی پوشیدہ راز کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ ہال سے گزرتے ہوئے وہ ایک طویل راہداری میں پہنچا جہاں دونوں طرف پرانے کمرے تھے جن کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور ان میں لگی لکڑیوں میں سے کریکنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہر کمرے میں پرانی چیزیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں، جیسے انہیں جلدی میں چھوڑ دیا گیا ہو۔

ایک کمرے میں اسے ایک پرانا پیانو نظر آیا جس کی چابیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس نے پیانو کی ایک ٹوٹی ہوئی چابی پر ہاتھ پھیرا تو ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ اچانک اسے لگا جیسے کسی نے اس کے پیچھے سے پکارا ہو۔ عدنان نے چونک کر پیچھے دیکھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔


پرانا پیانو 


وہ آگے بڑھتا رہا اور آخر کار ایک بڑی لائبریری میں پہنچا۔ یہاں ہزاروں پرانی کتابیں دھول میں اٹی ہوئی تھیں، کچھ کتابیں تو شیلف سے نیچے گری ہوئی تھیں۔ عدنان نے ایک کتاب اٹھائی، اس کا عنوان تھا "وقت کا سفر"۔ ابھی اس نے کتاب کھولی ہی تھی کہ اچانک لائبریری کے دروازے زور سے بند ہو گئے۔ وہ ہڑبڑا کر دروازے کی طرف لپکا، لیکن وہ اندر سے بند تھا۔

اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے آس پاس موجود ہے۔ ہوا میں سردی مزید بڑھ گئی تھی۔ اچانک، ایک پرانی تصویر جو دیوار پر لگی تھی، خود بخود ٹیڑھی ہو گئی۔ عدنان نے کانپتے ہاتھوں سے تصویر کو سیدھا کیا، لیکن جیسے ہی اس نے ہاتھ ہٹایا، تصویر دوبارہ ٹیڑھی ہو گئی۔

اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔ اسے لگا کہ وہ اب اکیلا نہیں ہے۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے ہمت کی اور پوری لائبریری میں نظر دوڑائی۔ اس کی نظر ایک پرانی میز پر پڑی جہاں ایک موم بتی جل رہی تھی، حالانکہ وہ اسے جلا کر نہیں آیا تھا۔ موم بتی کے قریب ایک پرانا رجسٹر پڑا تھا اور اس کے ساتھ ایک قلم رکھا ہوا تھا۔


میز پر رکھی ہوئی کتاب

عدنان نے دھیرے سے رجسٹر اٹھایا۔ رجسٹر کے پہلے صفحے پر لکھا تھا: "یہاں آنے والا ہر شخص ایک کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔" وہ پریشان ہو گیا، اس نے صفحات پلٹنے شروع کیے۔ ہر صفحے پر ایک عجیب سی تحریر تھی، جو شاید ہاتھ سے لکھی گئی تھی۔ جیسے ہی اس نے ایک صفحہ پڑھا، اسے لگا کہ یہ اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے۔ وہ حیران رہ گیا۔ اس میں اس کا بچپن، اس کے خواب، یہاں تک کہ وہ خفیہ باتیں بھی لکھی تھیں جو اس نے کبھی کسی کو نہیں بتائی تھیں۔

اسے احساس ہوا کہ یہ کوئی عام حویلی نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جو وقت اور حقیقت سے ماورا تھی۔ وہ ہر صفحہ پلٹتا رہا، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی حیرت بڑھتی گئی۔ آخر میں اسے ایک خالی صفحہ ملا۔ اس صفحے پر لکھا تھا: "تمہاری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اب تمہیں اپنی کہانی خود مکمل کرنی ہے۔"

اسے ایک عجیب سی کیفیت کا احساس ہوا۔ کیا یہ سب سچ تھا یا محض ایک خواب؟ اس نے قلم اٹھایا اور اس خالی صفحے پر لکھنا شروع کیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے، لیکن الفاظ خود بخود اس کے ذہن سے نکلتے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی کہانی کا اگلا حصہ لکھا، ایک ایسا حصہ جو اسے ابھی تک معلوم نہیں تھا۔

جیسے ہی اس نے آخری سطر لکھی، لائبریری کا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ باہر کی رات اب اتنی تاریک نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے جسم میں ایک نئی توانائی دوڑ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس حویلی کا مقصد صرف ڈرانا نہیں تھا، بلکہ اسے کچھ سکھانا تھا: کہ اس کی زندگی کی کہانی اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

 

اخلاقی سبق:

مختصراً، یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کے صفحات ہم خود لکھتے ہیں۔ حویلی کے پراسرار واقعات دراصل عدنان کو اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات اور اپنی تقدیر پر اس کے اختیار سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دعوت تھی جو اسے بیرونی دنیا سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے اندر سے آئی تھی، تاکہ وہ اپنی زندگی کو ایک نئے اور معنی خیز انداز میں جی سکےـ

Post a Comment

1Comments
  1. Nice lesson and good story 👌👍👌❤️❤️🥰❤️🥰🥰❤️

    ReplyDelete
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !