" عید اور کھوئی ہوئی آواز"
رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور عید کی خوشیاں ہر طرف رچی بسی تھیں۔ فضا میں کھانوں کی مہک اور بچوں کی ہنسی گونج رہی تھی عید کے خوشیوں بھرے ماحول کے باوجود، دس سال کا احمد خاموش اور غمگین بیٹھا تھا۔ اس کی اداسی کا سبب نہ تو کھلونوں کی خواہش تھی اور نہ ہی نئے کپڑوں کی کمی، بلکہ اس کی اپنی آواز کا کھو جانا تھا۔
![]() |
لذ یز کھا نے |
احمد کی آواز کچھ دن پہلے اچانک غائب ہو گئی تھی۔ پہلے تو اسے لگا کہ شاید گلا خراب ہے، لیکن جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس کی آواز واپس نہ آئی تو وہ پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بھی معائنہ کیا مگر کوئی طبی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ احمد اب بولنے سے قاصر تھا اور اپنی بات سمجھانے کے لیے اسے اشاروں یا لکھ کر مدد لینی پڑتی تھی۔
عید کا دن تھا۔ سب لوگ نئے کپڑے پہنے، خوش و خرم ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے۔ احمد بھی نئے کپڑوں میں ملبوس تھا، مگر اس کے چہرے پر وہ چمک نہیں تھی جو عید کے دن بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے۔ وہ خاموشی سے سب کو دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک انجانی اداسی تھی۔
اس کی چھوٹی بہن، سارہ، جو ہمیشہ اس کے ساتھ کھیلتی تھی، نے اس کی خاموشی محسوس کی۔ وہ اس کے پاس آئی اور پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی، "بھائی جان، آپ اداس کیوں ہیں؟"
احمد نے سارہ کی طرف دیکھا اور ایک گہری سانس لی۔ وہ اپنی کیفیت اسے کیسے سمجھائے؟ اس نے اپنی چھوٹی سی نوٹ بک نکالی اور اس پر لکھا، "میری آواز نہیں آ رہی، سارہ۔"
سارہ نے وہ کاغذ پڑھا اور اس کا معصوم چہرہ بھی اداسی سے بھر گیا۔ وہ اپنے بھائی کی تکلیف سمجھتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ احمد کو بولنا کتنا پسند تھا، وہ کتنی پیاری کہانیاں سناتا تھا اور کس طرح اپنی باتوں سے سب کو ہنساتا تھا۔
![]() |
احمد کا اداس چہر ہ |
سارہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی، "بھائی جان، کیا ہم اپنی آواز ڈھونڈنے جا سکتے ہیں؟"
احمد نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ کیا یہ ممکن تھا؟
سارہ نے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھر سے باہر لے گئی۔ وہ دونوں گلیوں میں گھومنے لگے، سارہ اپنے ننھے ذہن میں آواز ڈھونڈنے کے مختلف طریقے سوچ رہی تھی۔
انہوں نے مسجد کے باہر فقیروں کو دعا کرتے سنا، بچوں کو عید کے گیت گاتے دیکھا، اور بازار میں دکانداروں کی بلند آوازیں سنیں۔ ہر آواز احمد کے دل میں ایک ٹیس پیدا کر رہی تھی، اسے اپنی کھوئی ہوئی آواز کی یاد دلا رہی تھی۔
تھک ہار کر وہ ایک پارک میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ سارہ بھی خاموش ہو گئی تھی، اس کی چھوٹی سی کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی تھی۔
اچانک، احمد کی نظر ایک بوڑھے شخص پر پڑی جو ایک درخت کے نیچے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ اس کی بانسری کی دھیمی اور سریلی آواز فضا میں گھل رہی تھی۔ احمد اس آواز میں کھو گیا۔ اسے ایسا لگا جیسے یہ بانسری اس سے کچھ کہہ رہی ہو۔
![]() |
با نسر ی |
سارہ نے دیکھا کہ احمد اس موسیقی میں محو ہے۔ اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ دبایا۔
جب بوڑھے شخص نے بانسری بجانا ختم کیا تو احمد نے بے اختیار اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا۔
بوڑھے شخص نے مسکرا کر پوچھا، "کیا ہوا بیٹا؟ تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟"
احمد نے گھبرا کر اپنی نوٹ بک نکالی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ لکھ پاتا، اس کے اندر سے ایک ہلکی سی آواز نکلی۔ یہ اتنی دھیمی تھی کہ اسے خود بھی یقین نہیں آیا۔
اس نے دوبارہ کوشش کی اور اس بار آواز تھوڑی بلند تھی۔ "آ... آ..."
سارہ خوشی سے چلائی، "بھائی جان! آپ کی آواز!"
احمد نے حیرت سے اپنے گلے پر ہاتھ رکھا۔ کیا واقعی اس کی آواز واپس آ گئی تھی؟ اس نے ایک بار پھر کوشش کی اور اس بار ایک صاف لفظ اس کے منہ سے نکلا، "سارہ!"
سارہ نے لپک کر اسے گلے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
بوڑھا شخص مسکرا رہا تھا۔ اس نے کہا، "بیٹا، آوازیں کہیں جاتی نہیں ہیں۔ وہ ہمارے اندر ہی ہوتی ہیں۔ شاید تمہاری آواز کسی خاموش لمحے کا انتظار کر رہی تھی."
احمد نے بوڑھے شخص کا شکریہ ادا کیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ آواز صرف بولنے کا ذریعہ نہیں ہوتی، یہ احساسات اور جذبات کا اظہار بھی ہوتی ہے۔ اور شاید اس کی آواز اس وقت واپس آئی جب اس نے اپنی بہن کی محبت اور اس بوڑھے کی موسیقی میں سکون محسوس کیا۔
اس دن کے بعد احمد کی آواز کبھی گم نہیں ہوئی۔ وہ دوبارہ بولنے لگا، ہنسنے لگا اور اپنی پیاری باتوں سے سب کو محظوظ کرنے لگا۔ اسے اپنی آواز کی قدر پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی،کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خاموشی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
اخلاقی سبق:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے، ایک دوسرے سے محبت اور توجہ سے پیش آنا چاہیے، اور کبھی بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔