بچھڑے دلوں کا قصہ

Immo Kahani
0


"بچھڑے دلوں کا قصہ"


سمندر کی نیلی گہرائیوں میں، جہاں سورج کی کرنیں دھندلی ہو جاتی تھیں اور خاموشی کا راج تھا، جل پریوں کی ایک شاندار سلطنت آباد تھی۔ اس سلطنت میں، ایک شہزادی رہتی تھی جس کا نام کنول تھا۔ اس کے بال رات کے اندھیرے کی طرح سیاہ اور ریشمی تھے، اور اس کی آنکھیں سمندر کے سب سے قیمتی موتیوں کی مانند چمکدار تھیں۔ اس کی دم، جس پر چاندی اور فیروزی رنگ کے سکے بنے ہوئے تھے، پانی میں ایک دلکش لہر پیدا کرتی تھی۔
کنول کا دل اپنی سلطنت کی حدود سے پرے کی دنیا کے لیے بے چین رہتا تھا۔ وہ اکثر سطح سمندر کے قریب تیرتی اور دور ساحل پر نظریں جمائے رکھتی۔ اسے انسانوں کی دنیا کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش تھی، ان کی بنائی ہوئی عجیب و غریب چیزوں کے بارے میں، ان کی ہنسی اور ان کے غموں کے بارے میں۔


جل پری کنول 


ایک دن، جب کنول سطح کے قریب تیر رہی تھی، اس نے ساحل پر ایک نوجوان کو دیکھا۔ اس کا نام ارسلان تھا، اور وہ ایک فنکار تھا۔ اس کی انگلیاں جادوگر کی طرح حرکت کرتی تھیں، اور وہ اپنے کینوس پر رنگوں سے ایسی دنیا تخلیق کرتا تھا جو کنول نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ارسلان اکثر ساحل پر اکیلا بیٹھتا، اپنی تخلیقی دنیا میں مگن رہتا۔
کنول اس کی طرف کھنچی چلی آئی۔ وہ گھنٹوں پانی میں چھپی اسے دیکھتی رہتی، اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھتی۔ ارسلان کی تنہائی میں اسے ایک گہرا درد محسوس ہوتا تھا، ایک ایسی اداسی جو اس کی اپنی روح سے ہم آہنگ تھی۔
ایک شام، جب سورج سمندر میں ڈوب رہا تھا اور آسمان نارنجی اور گلابی رنگوں سے سجا ہوا تھا، کنول نے ہمت جمع کی۔ اس نے ایک قدیم جادو کا استعمال کیا جو اسے کچھ وقت کے لیے انسانی روپ دے سکتا تھا۔ اس کے پاس ایک ہار تھا جو سمندری جھاگ اور چاند کی روشنی سے بنا تھا، جسے پہننے سے اس کی دم دو خوبصورت ٹانگوں میں بدل جاتی تھی۔
ساحل پر قدم رکھتے ہی کنول نے ایک گہرا سانس لیا۔ زمین اس کے پاؤں کے نیچے عجیب اور ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ ارسلان کی طرف بڑھی، اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔
ارسلان نے جب اپنے سامنے ایک اجنبی لڑکی کو دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ کنول کے بال سمندر کی تاریکی کی طرح تھے، اور اس کی آنکھیں ستاروں کی مانند روشن تھیں۔ اس کی خوبصورتی ایسی تھی جیسے سمندر نے خود اسے تخلیق کیا ہو۔
کنول نے ہچکچاتے ہوئے بات شروع کی، اس کی آواز سمندری لہروں کی سرگوشی کی طرح تھی۔ اس نے اسے اپنا نام بتایا اور اس ساحل پر آنے کی وجہ بیان کی۔ ارسلان نے اسے غور سے سنا، اس کی کہانی میں کھو گیا۔ اسے فوراً ہی اس لڑکی میں کچھ خاص محسوس ہواـاس دن سے، کنول اور ارسلان خفیہ طور پر ملنے لگے۔ کنول ہر شام اپنا جادوئی ہار پہن کر آتی، اور وہ دونوں گھنٹوں ساحل پر باتیں کرتے۔ ارسلان نے اسے اپنی مصوری کے بارے میں بتایا، اپنی زندگی کے خوابوں اور امنگوں کے بارے میں۔ کنول نے اسے سمندر کی عجائب و غرائب دنیا کے بارے میں بتایا، چمکتی ہوئی مچھلیوں اور مرجانی باغات کے بارے میں۔
 ارسلان کنول کی خوبصورتی اور اس کی معصومیت پر فریفتہ تھا، اور کنول ارسلان کی مہربانی، اس کی تخلیقی روح اور اس کی گہری سمجھ بوجھ کی دیوانی تھی۔ وہ ایک دوسرے کی صحبت میں سکون اور خوشی محسوس کرتے تھے۔


ارسلان اور کنول کی محبت 


لیکن ان کی محبت ایک خطرناک راز تھی۔ کنول جانتی تھی کہ اگر اس کے والد کو اس کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ غضبناک ہوں گے۔ انسانوں کو وہ اپنی سلطنت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح، ارسلان کے گاؤں کے لوگ بھی ایک پراسرار اجنبی لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
وقت گزرتا گیا، اور کنول اور ارسلان کی محبت اور مضبوط ہوتی گئی۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک چاندنی رات میں، جب سمندر چاندی کی طرح چمک رہا تھا، ارسلان نے کنول سے شادی کی درخواست کی۔ کنول کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور اس نے ہاں میں سر ہلایا۔
لیکن ان کی خوشی عارضی تھی۔ ایک رات، جب کنول ساحل پر ارسلان کا انتظار کر رہی تھی، اس کے والد کے بھیجے ہوئے جل پری سپاہیوں نے اسے گھیر لیا۔ انہوں نے اس کا جادوئی ہار چھین لیا، اور اس کی انسانی شکل واپس مچھلی کی دم میں بدل گئی۔
ارسلان دور سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ بے بسی سے چیخا، لیکن وہ کنول تک نہیں پہنچ سکا۔ جل پری سپاہی کنول کو زبردستی سمندر میں لے گئے، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔
ارسلان کئی دنوں تک ساحل پر کنول کا انتظار کرتا رہا، اس کی امید دم توڑتی جا رہی تھی۔ آخر کار، اسے یقین ہو گیا کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گی۔ اس کا دل غم سے ٹوٹ گیا۔
کنول کو واپس سمندر کی سلطنت میں لے جایا گیا جہاں اس کے والد نے اسے سخت سزا دی۔ اسے اپنی نافرمانی پر گہرے افسوس کا اظہار کرنا پڑا۔ لیکن اس کے دل میں ارسلان کی محبت اتنی گہری تھی کہ وہ اسے کبھی بھلا نہ سکی۔


غم سے ٹوٹی ہوئی کنول


ارسلان نے کنول کو کبھی نہیں بھلایا۔ اس نے اپنی مصوری میں اس کی خوبصورتی اور ان کی محبت کی کہانی کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ اس کی پینٹنگز میں ایک پراسرار جل پری کی جھلک نظر آتی تھی، جس کی آنکھوں میں ایک اداس کہانی چھپی ہوتی تھی۔
لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ چاندنی رات میں ساحل پر جائیں اور خاموشی سے سمندر کی لہروں کو سنیں، تو آپ کو کنول اور ارسلان کی محبت کی سرگوشی سنائی دے سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی محبت کی داستان ہے جو دو مختلف جہانوں کے درمیان پروان چڑھی اور جدائی کے باوجود ہمیشہ زندہ رہی۔ کنول اور ارسلان کی روحیں، اگرچہ جدا ہیں، اب بھی سمندر اور زمین کے درمیان ایک ابدی بندھن میں جڑی ہوئی ہیں۔

اخلاقی سبق:

کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ فطرت کے بنائے ہوئے قوانین اور حدود کو پار کرنا مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے۔ جل پری اور انسان کے درمیان مستقل تعلق قائم کرنے میں فطری رکاوٹیں موجود تھیں۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !