" گمشدہ یادگار"
![]() |
ز مر د کی انگوٹھی |
اچانک، ان کی نظر اپنی انگلی پر پڑی اور وہ ایک دم سے چونک اٹھیں۔ ان کی قیمتی زمرد کی انگوٹھی، جو انہیں اپنی پیاری ساس کی جانب سے ان کی شادی کی پچاسویں سالگرہ کے پرمسرت موقع پر بطور تحفہ عطا کی گئی تھی، ان کی انگلی سے غائب تھی! یہ انگوٹھی ان کے لیے محض ایک عام سا زیور نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی زندگی کے ایک اہم سنگ میل کی یادگار تھی-
ان کے خوبصورت ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمایاں ہو گئیں۔
ان کے خوبصورت ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمایاں ہو گئیں۔
انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے اپنے تمام ملازموں کو فوراً طلب کیا اور ان سے اپنی گمشدہ انگوٹھی کے بارے میں استفسار کیا۔ گھر کے ہر فرد نے یک زبان ہو کر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ثریا بیگم کی پریشانی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ انہوں نے خود بھی پورے گھر کے کونے کونے میں انگوٹھی کی تلاش جاری رکھی، لیکن انہیں اس کا کوئی بھی نشان نہ مل سکا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کی مایوسی گہری ہوتی جا رہی تھی۔
اگلے دن، ثریا بیگم نے اپنے سمجھدار بیٹے، علی، اور اپنی مہربان بہو، نادیہ، کو اس ناخوشگوار واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ان کے بیٹے، علی، نے اپنی والدہ کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ گھر کے تمام ملازموں کو ایک ایک کر کے بلایا گیا اور ان سے باریک بینی سے پوچھ گچھ کی گئی، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی بھی اس قیمتی انگوٹھی کے بارے میں ذرہ برابر بھی معلومات نہیں دے سکا۔
دن گزرتے گئے اور انگوٹھی کا کوئی بھی سراغ نہ مل سکا۔ ثریا بیگم کی امیدیں دھیرے دھیرے دم توڑتی جا رہی تھیں۔ وہ اکثر اپنی گمشدہ انگوٹھی کو یاد کر کے اداس اور مغموم ہو جاتی تھیں۔ ان کی پیاری بہو، نادیہ، نے انہیں دلاسہ دینے اور ان کے دل کو سکون بخشنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ثریا بیگم کا دل کسی بھی صورت قرار نہیں پا رہا تھا۔ اس انگوٹھی سے جڑی یادیں ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں شام کے ایک سحر انگیز منظر میں، نادیہ اپنے دلکش باغ کے نازک پودوں کو بڑی محبت اور دھیان سے پانی دے رہی تھی کہ اچانک ایک غیر متوقع چمک نے اس کی توجہ مبذول کر لی۔وہ تجسس کے زیر اثر اس کے قریب گئی اور جب اس نے اس چیز کو غور سے دیکھا تو وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ یہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ وہی قیمتی زمرد کی انگوٹھی تھی جو ثریا بیگم کی انگلیوں سے گم ہو گئی تھی! انگوٹھی ایک صحت مند اور سرسبز گلاب کے پودے کی جڑوں میں کسی طرح پھنس گئی تھی۔
![]() |
گم شدہ انگوٹھی |
نادیہ نے فوراً انگوٹھی کو احتیاط سے اٹھایا اور خوشی سے سرشار ہو کر ثریا بیگم کے کمرے کی طرف بھاگی۔ اپنی گمشدہ انگوٹھی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر ثریا بیگم کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ان کی نمکین آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہو گئے۔ انہوں نے محبت سے نادیہ کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس احسان کے لیے اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
جب علی کو اس خوشخبری کے بارے میں علم ہوا تو وہ بھی بے حد خوش ہوا۔ انہوں نے نادیہ سے اشتیاق سے پوچھا کہ آخر یہ انگوٹھی وہاں کیسے پہنچی۔ نادیہ نے انہیں بتایا کہ جب وہ باغ میں اپنے پودوں کو پانی دے رہی تھی تو اتفاقاً اس نے اس چمکتی ہوئی انگوٹھی کو مٹی میں دبا ہوا پایا۔
کچھ دنوں بعد، گھر کا ایک تجربہ کار اور وفادار مالی، رمضان، حسب معمول باغ میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ ثریا بیگم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے انگوٹھی کے گم ہونے کے واقعے کے بارے میں پوچھا۔ رمضان نے قدرے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ اس مخصوص دن جب ثریا بیگم برآمدے میں اپنی کرسی پر تشریف فرما تھیں اور چائے نوش کر رہی تھیں، تو وہ باغ میں گھاس کاٹنے کے کام میں مصروف تھا۔ بدقسمتی سے، اس کی تیز دھار والی کینچی سے ایک چھوٹی سی چنگاری نکلی جو ہوا میں اڑتی ہوئی ثریا بیگم کی نازک انگلی سے ٹکرا گئی۔ ثریا بیگم نے اچانک گھبرا کر اپنا ہاتھ جھٹکا تو انگوٹھی ان کی انگلی سے پھسل کر قریبی گھاس میں جا گری۔ رمضان نے انگوٹھی کو گرتے ہوئے دیکھا تھا، لیکن وہ اس قدر خوفزدہ ہو گیا تھا کہ اگر اس نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو اسے یقیناً ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے اس نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ بعد میں، جب اس نے انگوٹھی کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تو وہ اسے گھاس میں چھپی ہونے کی وجہ سے نہ مل سکی۔
رمضان نے اپنی سنگین غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور ثریا بیگم سے صدق دل سے معافی کا طلبگار ہوا۔ ثریا بیگم نے اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے فوراً معاف کر دیا اور اپنی قیمتی انگوٹھی کے بالآخر مل جانے پر دلی مسرت کا اظہار کیا۔
Very nice 🙂
ReplyDeleteBeautiful 😍❤️😍❤️😍❤️
ReplyDelete