" د لی خو شی کا راز"
شہر کے کنارے، جہاں پرانی دیواریں آسمان کو چھوتی تھیں، ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کی چھت پر بوگن ویلیا کے گلابی پھولوں کی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ اس گھر میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی، جس کا نام بیگم جان تھا،
![]() بیگم جان |
بیگم جان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جو برسوں کہ بیگم جان کے پاس پرانے زمانے کی کہانیاں ہیں، جن میں جادو بھی ہے اور نصیحت بھی۔
ایک گرم دوپہر، جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، ایک نوجوان لڑکا اس گھر کے دروازے پر آیا۔ اس کا نام علی تھا، اور وہ شہر کا ایک ذہین اور تجسس سے بھرپور لڑکا تھا۔ علی نے سنا تھا کہ بیگم جان کے پاس ایک ایسی کہانی ہے جو زندگی بدل سکتی ہے۔
"السلام علیکم، بیگم جان،" علی نے ادب سے کہا۔
"وعلیکم السلام، بیٹا،" بیگم جان نے اپنی مدھر آواز میں جواب دیا۔ "کیا بات ہے جو تمہیں اس بوڑھے گھر تک کھینچ لائی؟"
"میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس ایک خاص کہانی ہے،" علی نے جھجکتے ہوئے کہا۔ "کیا آپ مجھے وہ کہانی سنا سکتی ہیں؟"
بیگم جان مسکرائیں، ان کی آنکھوں کی جھریاں اور گہری ہو گئیں۔ "ہر کہانی خاص ہوتی ہے، بیٹا۔ لیکن تم کس کہانی کی بات کر رہے ہو؟"
"میں نے سنا ہے کہ ایک ایسی کہانی ہے جو بتاتی ہے کہ خوشی کہاں ملتی ہے،" علی نے وضاحت کی۔ "میں اسے جاننا چاہتا ہوں۔"
بیگم جان نے علی کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ اسے ایک پرانے قالین پر بٹھائیں اور خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گئیں۔ کمرے میں پرانی کتابوں کی خوشبو اور لوبان کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوئی تھی۔
"اچھا، بیٹا،" بیگم جان نے شروع کیا۔ "میں تمہیں وہ کہانی سناتی ہوں جو میں نے اپنی دادی سے سنی تھی۔ یہ کہانی ایک ایسے شہزادے کی ہے جو خوشی کی تلاش میں نکلا تھا۔"
پرانے زمانے میں، ایک سلطنت تھی جو اپنی دولت اور شان و شوکت کے لیے دور دور تک مشہور تھی۔ اس سلطنت کا ایک شہزادہ تھا، جس کا نام کامران تھا۔ شہزادہ کامران کے پاس سب کچھ تھا ـ
![]() |
شہزادہ کا مر ا ن |
خوبصورت محل، قیمتی لباس، اور خدمت گاروں کی فوج۔ لیکن اس کے باوجود، وہ خوش نہیں تھا۔ اس کے دل میں ایک خالی پن تھا، جسے وہ کسی بھی چیز سے بھر نہیں پا رہا تھا۔
ایک دن، شہزادے نے اپنے والد، بادشاہ سے کہا کہ وہ خوشی کی تلاش میں نکلنا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے پہلے تو اسے منع کیا، لیکن جب اس نے اپنے بیٹے کی بے چینی دیکھی تو اسے جانے کی اجازت دے دی۔
شہزادہ کامران نے اپنا قیمتی لباس اتارا اور ایک عام مسافر کا بھیس بدل لیا۔
طویل سفر طے کرتے ہوئے اس نے لاتعداد جنگلات، بلند و بالا پہاڑ اور وسیع و عریض ندیاں عبور کیں۔ اس نے ہر اس فرد سے ملاقات کی جس کے بارے میں اس نے سن رکھا تھا کہ وہ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے – ایک ایسا متمول تاجر جس کے پاس بے انتہا دولت تھی۔
ایک طاقتور جنگجو جس نے کئی لڑائیاں جیتی تھیں، اور ایک مشہور عالم جس کے پاس علم کا خزانہ تھا۔
شہزادے نے ان سب سے پوچھا کہ خوشی کہاں ملتی ہے۔ تاجر نے کہا کہ خوشی دولت میں ہے، جنگجو نے کہا کہ خوشی طاقت میں ہے، اور عالم نے کہا کہ خوشی علم میں ہے۔ کامران نے ان سب کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے کہیں بھی حقیقی خوشی نہیں ملی۔ اس کا دل اب بھی اداس اور خالی تھا۔
تھک ہار کر، شہزادہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پہنچا۔ وہاں اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو ایک ٹوٹے ہوئے کنویں کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ کامران نے اس کے پاس جا کر پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔
![]() |
کنو ا ں |
"اے مسافر،" بوڑھی عورت نے سسکتے ہوئے کہا۔ "میرا واحد گھڑا کنویں میں گر گیا ہے، اور اب میرے پاس پینے کے لیے پانی بھی نہیں ہے۔"
شہزادے نے فوراً کنویں میں جھانکا۔ وہ گہرا اور تاریک تھا۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے رسی مانگی اور کنویں میں اتر گیا۔ کافی جدوجہد کے بعد، وہ ٹوٹا ہوا گھڑا نکالنے میں کامیاب ہو گیا ـ شہزادے کو جو خوشی بوڑھی عورت کی مدد کرنے میں محسوس ہوئی
وہ اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
وہ اس گاؤں میں کچھ دن اور رکا۔ اس نے لوگوں کی مدد کی، بیماروں کی تیمارداری کی، اور بچوں کو کہانیاں سنائیں۔ ہر وہ کام جو وہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کرتا تھا، اس کے دل کو ایک نئی خوشی سے بھر دیتا تھا۔
جب شہزادہ واپس اپنی سلطنت میں لوٹا، تو وہ ایک بدلا ہوا انسان تھا۔ اب وہ سمجھ گیا تھا کہ حقیقی خوشی دولت، طاقت یا علم میں نہیں، بلکہ دوسروں کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ بانٹنے میں ہے۔ اس نے اپنی سلطنت میں انصاف اور رحم دلی کا بول بالا کیا، اور اس کی رعایا نے اسے پہلے سے کہیں زیادہ پیار کیا۔
بیگم جان نے کہانی ختم کی اور علی کی طرف دیکھا۔ علی کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی۔
"تو، بیٹا، اب تم سمجھے کہ خوشی کہاں ملتی ہے؟" بیگم جان نے نرمی سے پوچھا۔
"ہاں، بیگم جان،" علی نے جواب دیا۔ "خوشی دوسروں کی مدد کرنے میں اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں ہے۔"
"بالکل، بیٹا،" بیگم جان نے کہا۔ "یہی زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے
اخلاقی سبق:
شہزادے کو حقیقی سکون اور خوشی اس وقت ملی جب اس نے بوڑھی عورت کی مدد کی اور گاؤں کے لوگوں کی خدمت کی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا دلی خوشی کا باعث بنتا ہے۔