فرعون کی سرکشی اور بنی اسرائیل کی نجات

Immo Kahani
0


"فرعون کی سرکشی اور بنی اسرائیل کی نجات"

ایک بہت پرانی بات ہے، مصر کی سرزمین پر ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کا نام فرعون تھا۔ وہ خود کو خدا کہتا تھا اور اس کا تخت سونے اور ہیروں سے جڑا ہوا تھا۔ مصر کے لوگ اس سے خوفزدہ رہتے تھے، خاص طور پر ایک قوم بنی اسرائیل، جو فرعون کی غلامی میں پس رہی تھی۔ فرعون نے انہیں سخت محنت پر لگا رکھا تھا، اور ان پر ظلم و ستم کی حد کر دی تھی۔


فرعون

ایک دن فرعون کو ایک عجیب خواب آیا، یا شاید کسی کاہن نے اسے بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کی بادشاہی کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ یہ سنتے ہی فرعون غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے تمام نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کر دیا جائے۔

اسی دوران، بنی اسرائیل کے ایک گھر میں ایک خوبصورت بچہ پیدا ہوا، جس کا نام موسیٰ تھا۔ اس کی ماں اپنے بچے کو فرعون کے سپاہیوں سے بچانا چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس نے ایک ٹوکری میں موسیٰ کو لٹایا اور دریائے نیل میں بہا دیا۔ اللہ کی قدرت کہ یہ ٹوکری بہتے بہتے فرعون کے محل تک پہنچی اور اس کی ملکہ نے اسے دیکھا۔ ملکہ کو اس بچے سے محبت ہو گئی اور اس نے اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا، فرعون کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اس کا اپنا انجام اس کے محل میں پل رہا ہے۔

اللہ کا پیغام اور فرعون کا انکار

جب حضرت موسیٰؑ بڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر اسے سیدھا راستہ دکھائیں اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلائیں۔ حضرت موسیٰؑ اپنے بھائی، حضرت ہارونؑ کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے۔

انہوں نے فرعون سے کہا: "اے فرعون! میں اللہ کا پیغمبر ہوں، ایک خدا کا جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ شرک چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی کرو، اور بنی اسرائیل کو آزاد کر دو۔"

فرعون، جو اپنے غرور میں مبتلا تھا، ہنسا اور بولا: "کیا؟ تم مجھے، جو مصر کا بادشاہ ہوں، یہ سب سکھاؤ گے؟ تم ایک جادوگر ہو! جاؤ یہاں سے، ورنہ تمہیں قید کر دوں گا!"

نو عذاب اور ایک قوم کا صبر

فرعون کی سرکشی پر اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا، اور اس نے مصر پر پے در پے عذاب نازل کرنا شروع کیے۔ یہ کوئی معمولی عذاب نہ تھے، بلکہ اللہ کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

پہلے، دریائے نیل کا پانی خون میں بدل گیا، جس سے پینے کے لیے ایک قطرہ بھی نہ ملا۔ پھر، مصر پر مینڈکوں کا ایک سیلاب ٹوٹ پڑا، وہ گھروں، کھانوں اور بستروں میں ہر جگہ موجود تھے۔


مینڈکوں کی بارش کا عذاب 

 اس کے بعد، جوئیں اور کیڑے مکوڑے پھیل گئے، جس نے سب کو پریشان کر دیا۔ پھر، جانوروں میں ایک وباء پھیلی اور ہزاروں مویشی مر گئے۔

اس کے بعد، مصریوں کے جسموں پر پھوڑے اور آبلے نکل آئے جو تکلیف دہ تھے۔ پھر، آسمان سے شدید بارش، آسمانی بجلی اور بڑے بڑے اولے برسے، جس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ اس کے بعد، پورے مصر پر تین دن تک گہرا اندھیرا چھا گیا، لوگ ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے، جبکہ بنی اسرائیل کے علاقوں میں روشنی تھی۔

ہر عذاب کے بعد فرعون گھبرا جاتا اور حضرت موسیٰؑ سے کہتا: "دعا کرو یہ عذاب ٹل جائے، میں تمہاری قوم کو جانے دوں گا۔" لیکن جوں ہی عذاب ٹلتا، وہ اپنا وعدہ توڑ دیتا اور اپنی سرکشی پر اڑا رہتا۔

آخر میں، سب سے بڑا عذاب نازل ہوا: اللہ کے حکم سے مصر کے تمام پہلوٹھے بیٹے، یہاں تک کہ فرعون کا اپنا بیٹا بھی، راتوں رات ہلاک ہو گئے۔ صرف بنی اسرائیل کے گھرانے بچ گئے جن کی دہلیزوں پر اللہ کے حکم سے خون کا نشان لگایا گیا تھا۔

سمندر کا راستہ اور فرعون کا انجام

اس آخری عذاب نے فرعون کی کمر توڑ دی۔ اس نے گھبرا کر حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے کی اجازت دے دی۔ بنی اسرائیل نے رات کے اندھیرے میں مصر سے ہجرت کی، لیکن فرعون کا دل ایک بار پھر بدل گیا اور اس نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔

جب حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل بحیرہ قلزم (ریڈ سی) کے کنارے پہنچے تو ان کے سامنے گہرا سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا بڑا لشکر گرد و غبار اڑاتا چلا آ رہا تھا۔ بنی اسرائیل خوفزدہ ہو گئے، "اے موسیٰ! ہم پھنس گئے!" انہوں نے پکارا۔

حضرت موسیٰؑ نے اللہ پر توکل کیا اور اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری۔ اور معجزہ ہوا! سمندر میں ایک خشک راستہ بن گیا، اور پانی دونوں طرف اونچی دیواروں کی طرح کھڑا ہو گیا۔ بنی اسرائیل اس خشک راستے پر چلتے ہوئے سمندر پار کر گئے۔

فرعون اور اس کا لشکر، اس معجزے کو دیکھ کر حیران رہ گیا، لیکن غرور میں اندھا ہو کر انہوں نے بھی اسی راستے پر سمندر میں داخل ہونا شروع کیا۔ جب آخری سپاہی سمندر میں داخل ہوا، تو اللہ کے حکم سے پانی کی دیواریں آپس میں مل گئیں۔ فرعون اور اس کا سارا لشکر، اپنی تمام شان و شوکت اور طاقت کے ساتھ، سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا۔ فرعون نے ڈوبتے ہوئے کہا: "میں ایمان لایا!" لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی، اس کا ایمان قبول نہ ہوا۔

اس طرح، ایک ظالم بادشاہ کا انجام ہوا، اور بنی اسرائیل کو صدیوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ یہ کہانی آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کی قدرت سب سے بڑی ہے، اور غرور و تکبر کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔

اخلاقی سبق:

فرعون نے خود کو خدا سمجھا اور اپنی طاقت و اختیار پر گھمنڈ کیا۔ وہ دوسروں پر ظلم کرتا رہا اور حق بات سننے سے انکار کیا۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ تکبر اور سرکشی ہمیشہ زوال کا باعث بنتی ہے۔ اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا، چاہے وہ کتناہی طاقتور کیوں نہ ہوـ

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !