راجا اور رانی کی کہانی

Immo Kahani
0

 راجا اور رانی کی کہانی


ایک بہت دور دراز ملک میں، جہاں سبزے سے بھرے میدان تھے اور اونچے، برف پوش پہاڑ آسمان سے باتیں کرتے تھے، وہاں ایک خوبصورت ریاست تھی۔ راجا سورج سنگھ، جو اپنی بے مثال بہادری، مثالی انصاف اور رعایا پروری کے لیے مشہور تھے، اپنی حسین اور ذہین رانی کے ہمراہ اپنی ریاست پر حکمرانی کرتے تھے۔ رانی کا نام رانی کرن دیوی تھا، اور وہ اپنی خوبصورتی، رحم دلی اور ذہانت کی وجہ سے ریاست بھر میں جانی جاتی تھی۔ دونوں کو اپنی رعایا بے حد پسند کرتی تھی۔


رانی

راجا اور رانی کا کوئی بچہ نہیں تھا، اس بات کی انہیں ایک گہری اداسی تھی۔ انہوں نے کئی سال دعائیں کیں، مندروں میں منتیں مانیں، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ اس کمی کے باوجود، انہوں نے اپنی رعایا کی بھلائی کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ 

ایک دن راجا اور رانی اپنی ریاست سے باہر گھنے جنگلوں میں شکار کے لیے نکلے ہوئے تھے کہ اچانک انہیں ایک ویران جھونپڑی سے بچے کے رونے کی دل دہلا دینے والی آواز سنائی دی۔ یہ آواز اس قدر غیر متوقع تھی کہ دونوں ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک گئے۔

وہ دونوں جھونپڑی کے قریب گئے تو دیکھا کہ ایک غریب عورت اپنے نومولود بچے کو سینے سے لگائے رو رہی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عورت بہت بیمار ہے اور اس کا شوہر کچھ دن پہلے ایک حادثے میں فوت ہو گیا ہے۔ عورت نے راجا اور رانی سے التجا کی کہ وہ اس کے بچے کو اپنا لیں۔

راجا اور رانی نے اس بچے کو خدا کا انعام سمجھا اور اسے اپنے ساتھ محل لے آئے۔ انہوں نے اس کا نام "آکاش" رکھا، جس کا مطلب "آسمان" ہے۔ آکاش کو شاہی پروٹوکول کے مطابق پالا گیا۔ اسے بہترین تعلیم دی گئی اور اسے ہر طرح کی سہولیات میسر تھیں۔ آکاش بھی بہت ذہین اور بہادر بچہ نکلا۔ وہ اپنے گود لینے والے والدین سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور ان کا احترام کرتا تھا۔

سال گزرتے گئے اور آکاش ایک خوبصورت اور طاقتور نوجوان بن گیا۔ وہ تلوار بازی، گھڑ سواری اور جنگی حکمت عملی میں ماہر ہو گیا۔ راجا سورج سنگھ اور رانی کرن دیوی کو اس پر بہت فخر تھا۔ وہ جانتے تھے کہ آکاش ریاست کا مستقبل ہے۔

لیکن ریاست میں کچھ وزراء ایسے بھی تھے جو آکاش کو بادشاہت کے لیے موزوں نہیں سمجھتے تھے کیونکہ وہ راجا اور رانی کا حقیقی بیٹا نہیں تھا۔ ان میں سے ایک، وزیر دھرم پال، بہت چالاک اور لالچی شخص تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا اپنا بیٹا تخت کا وارث بنے۔ اس نے آکاش کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیں۔

ایک دن، وزیر دھرم پال نے راجا کو قائل کیا کہ آکاش کی وفاداری جانچنے کے لیے اسے ایک خطرناک مشن پر بھیجا جائے۔ اس نے تجویز دی کہ آکاش کو "کالے پہاڑ" پر بھیجا جائے جہاں ایک خوفناک اژدھا رہتا تھا، اور اس سے ایک نایاب جڑی بوٹی لانے کا کہا جائے جو لاعلاج بیماریوں کا علاج کر سکتی تھی۔ وزیر کا خیال تھا کہ آکاش کبھی واپس نہیں آئے گا۔

کالے پہاڑ

راجا کو اپنے بیٹے پر پورا بھروسہ تھا، اس کے باوجود انہوں نے وزیر کے مشورے پر عمل کیا اور آکاش کو اس خطرناک مہم پر روانہ کر دیا۔ جب رانی کو اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوئیں، مگر آکاش نے اپنی ماں کو تسلی دی اور پختہ ارادے سے کہا کہ وہ اس مشن میں ضرور کامیاب ہو کر واپس آئے گا۔

آکاش نے کالے پہاڑ کی طرف سفر شروع کیا۔ راستے میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے گھنے جنگلوں، خطرناک درندوں اور پتھریلی راہوں سے گزرنا پڑا۔ اس کے عزم اور بہادری نے اسے آگے بڑھنے میں مدد دی۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد وہ کالے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جہاں اژدھا رہتا تھا۔ اژدھا بہت بڑا اور خوفناک تھا، لیکن آکاش نے اپنی بہادری اور حکمت عملی سے اس کا مقابلہ کیا۔ اس نے اژدھے کو قابو کیا اور نایاب جڑی بوٹی حاصل کر لی۔

جب آکاش فاتحانہ انداز میں محل واپس آیا تو راجا اور رانی بہت خوش ہوئے۔ وزیر دھرم پال اپنی سازش کے ناکام ہونے پر غصے میں تھا، لیکن وہ کچھ کر نہ سکا۔ راجا نے آکاش کی بہادری اور وفاداری کی تعریف کی۔

اسی دوران، رانی کرن دیوی شدید بیمار پڑ گئیں۔ کئی حکیموں اور ویدوں نے اس کا علاج کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آکاش نے فوراً وہ نایاب جڑی بوٹی استعمال کی جو وہ کالے پہاڑ سے لایا تھا۔ معجزاتی طور پر، جڑی بوٹی کے اثر سے رانی کی صحت بہتر ہونے لگی اور وہ چند ہی دنوں میں مکمل طور پر ٹھیک ہو گئیں۔

راجا اور رانی کو اب کوئی شک نہیں رہا کہ آکاش ہی ان کی ریاست کا حقیقی وارث ہے۔ راجا نے ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا اور آکاش کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ وزیر دھرم پال کی سازشیں بے نقاب ہوئیں اور اسے اپنی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

آکاش نے راجا اور رانی کی زیر نگرانی ریاست کا انتظام سنبھالا اور ثابت کیا کہ وہ ایک بہترین حکمران ہے۔ اس نے اپنے والدین کی طرح اپنی رعایا کی خدمت کی اور ریاست کو مزید خوشحال بنایا۔ راجا اور رانی اپنی زندگی کے آخری ایام تک خوشی اور سکون سے رہے۔ آکاش نے انہیں کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ وہ ان کا حقیقی بیٹا نہیں تھا۔ اس طرح، ایک گود لیے ہوئے بیٹے نے اپنی وفاداری، بہادری اور محبت سے راجا اور رانی کے دل جیت لیے اور اپنی ریاست کا ایک روشن مستقبل یقینی بنایا۔

اخلاقی سبق:

کہانی میں وزیر دھرم پال کا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ حسد اور سازش کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ اس نے آکاش کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، لیکن بالآخر اسے خود اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ نیکی اور سچائی بالآخر غالب آتی ہے، جبکہ برائی اور چالاکی کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !