" گھٹا اور بادلوں کا قہر"
تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل، جب انسانی تہذیب اپنی ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، دنیا فطرت کے بے کراں اسرار میں لپٹی ہوئی تھی۔ ہر سو گھنے جنگلات اور ان دیکھی قوتوں کا راج تھا۔ اس دور میں ایک ایسا خطہ تھا جسے "وادیٔ مہتاب" کے نام سے جانا جاتا تھا ـ سرسبز و شاداب، بلند و بالا درختوں سے مزین اور پرسکون۔ یہاں کے باسی سادگی کی زندگی گزارتے تھے، ان کا رزق کھیتی باڑی اور جنگلی شکار سے جڑا تھا۔ وہ خود کو فطرت کے محافظ سمجھتے تھے، اور آسمان و زمین ان کے لیے دوست سے کم نہ تھے۔
وادیٔ مہتاب ایک وسیع میدان اور پہاڑی سلسلہ پر مشتمل تھی٬ جو گھنے جنگلات میں گھرا ہوا تھا۔ یہ نام شاید چاند کی روشنی میں اس کی دلکشی کی عکاسی کرتا تھا، یا کسی قدیم قبیلے کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے کبھی اس پر حکمرانی کی تھی۔ یہاں کا موسم معتدل تھا، اور لوگ خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے شب و روز فطرت کی تال پر ڈھلے ہوئے تھے۔ صبح ہوتے ہی کسان اپنے کھیتوں کی طرف نکلتے، عورتیں چشموں سے پانی بھرتی اور بچے جنگل کے کناروں پر کھیلتے۔ یہ زندگی ایک خواب کی مانند تھی، جہاں ہر دن ایک نیا جشن اور ہر لمحہ امید کا پیغام ہوتا تھا۔۔
![]() |
عورتیں چشمے سے پانی نکالتے ہوئے |
آنے والی آفت کا اشارہ:
ایک غیر متوقع دن، وادیٔ مہتاب کے اوپر ایک پراسرار سایہ چھا گیا۔ نیلگوں آسمان یک دم سرمئی، پھر گہرے بنفشی رنگ میں ڈھلنے لگا۔ فضا میں ایک انوکھی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ پرندے، جو صبح و شام چہچہاتے تھے، خاموش ہو کر اپنے گھونسلوں میں دبک گئے۔ جنگلی جانور گہرائیوں میں پناہ لینے لگے۔ یہ فطرت کا ایک خاموش انتباہ تھا جسے انسان سمجھنے سے قاصر تھے۔
لوگوں نے ابتدا میں اسے موسم کی معمولی تبدیلی جانا، مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ آسمان پر بادل اس طرح چھا گئے جیسے کسی نے سیاہ چادر اوڑھ لی ہو۔ ان بادلوں کی گرج بھیانک تھی اور بجلی کی چمک اس قدر تیز کہ آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔ ہوا میں ایک عجیب سی بو پھیل گئی جو سانس لینے میں دشواری پیدا کر رہی تھی۔
![]() |
کالے سیاہ بادل اور بجلی کی گرج |
چیختی ہوئی دہاڑ ا:
گھٹا اور بادلوں کا قہرور آسمانی گرجسی اثنا میں ایک اور غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔ وادیٔ مہتاب کے ایک دور دراز علاقے میں، جہاں لوگ لکڑیاں جمع کر رہے تھے، اچانک ایک خوفناک چیخ بلند ہوئی۔ یہ ایک شیر کی کربناک آواز تھی جو ایک شگاف میں پھنس گیا تھا۔ یہ کسی انسان کا بچھایا ہوا جال نہ تھا، بلکہ زمین میں اچانک پڑنے والا ایک گہرا دراڑ تھا جو شاید زیرِ زمین ہلچل کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ شیر کی دہاڑ سے سارا جنگل گونج اٹھا، اور اس کی دردناک آواز نے ماحول کو مزید ہولناک بنا دیا۔
اس شیر کی چیخ کے ساتھ ہی، آسمان پر چھائے بادلوں کی گھن گرج میں غیر معمولی شدت آ گئی۔ جیسے ہی شیر اس قدرتی شگاف میں گرا، آسمان نے اپنا غضب دکھانا شروع کر دیا۔ کالی گھٹائیں مزید گہری ہو گئیں اور بجلی اس شدت سے کڑکنے لگی کہ زمین لرز اٹھی۔ لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے، مگر ایسا لگتا تھا جیسے فطرت نے انہیں مہلت نہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہو۔
گھٹن اور موت کا رقص:
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ وادیٔ مہتاب کی تاریخ میں ایک بھیانک باب کے طور پر درج ہو گیا۔ فضا میں گھٹن اس قدر بڑھ گئی کہ سانس لینا محال ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہوا میں کوئی زہریلی گیس شامل ہو گئی ہو۔ لوگوں کو شدید کھانسی آنے لگی، ان کی آنکھوں میں جلن محسوس ہونے لگی اور سینے میں درد اٹھنے لگا۔ ہر وہ شخص جو اس ہوا میں سانس لے رہا تھا، اسے ناقابلِ برداشت تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
ایک کے بعد ایک، لوگ زمین پر گرنے لگے، ان کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ بچے، بوڑھے، جوان سب ایک ہی مہلک مصیبت کا شکار ہو رہے تھے۔ یہ کوئی بیماری نہیں تھی، بلکہ یہ فضا میں موجود کوئی ایسی چیز تھی جو ان کے پھیپھڑوں کو بند کر رہی تھی۔ لوگ اپنے عزیزوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے دیکھ رہے تھے، لیکن بے بس تھے، کیونکہ وہ خود اسی عذاب سے گزر رہے تھے۔ زمین پر مزید گہرے شگاف نمودار ہوئے، جن میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی گھر اور مکانات دفن ہوتے چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے زمین نے سب کچھ اپنے اندر نگل لیا ہو، جس میں وہ شیر بھی شامل تھا جو شاید اس آفت کا پہلا نشانہ بنا تھا۔
وادیٔ مہتاب کا انجام:
پوری وادیٔ مہتاب دھیرے دھیرے زمین میں سما گئی۔ جو لوگ زندہ بچ سکے، وہ یا تو کہیں دور بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے یا پھر زمین کے اندر دفن ہونے سے بال بال بچ گئے تھے۔ لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ ایک ایسا المناک واقعہ تھا جس نے ایک آباد اور پر رونق علاقے کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دیا۔ آسمان کا رنگ کئی دنوں تک کالی گھٹاؤں میں گھرا رہا اور بجلی کڑکتی رہی، جیسے فطرت اب بھی اپنے غضب کا اظہار کر رہی ہو۔
جب طوفان تھما اور آسمان صاف ہوا، تو وادیٔ مہتاب کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ جہاں کبھی لہلہاتے کھیت تھے،
وہاں گہرے شگاف اور مٹی کے ڈھیر تھے۔
![]() |
خوفناک وادئ مہتاب |
جہاں خوبصورت گھر تھے، وہاں اب صرف کھنڈرات اور خاموشی تھی۔ یہ جگہ ایک پراسرار اور خوفناک کہانی کا حصہ بن چکی تھی، جسے بعد کی نسلوں نے ایک قدرتی آفت اور شاید فطرت کے انتقام کے طور پر یاد کیا