"بادلوں کے پردے میں زندگی"
شہرِ خاموشاں کے ایک پرانے محلے میں، جہاں وقت کی دھول ہر چیز پر جمی ہوئی تھی، ایک چھوٹی سی لڑکی رہتی تھی جس کا نام رانیہ تھا۔ اس کی عمر سات سال تھی، لیکن اس کی آنکھیں کسی صدیوں پرانے راز کی گواہ لگتی تھیں۔ وہ اکثر اپنی کھڑکی سے آسمان کو تکتی رہتی تھی، خاص طور پر بادلوں کو۔ اسے یقین تھا کہ ان روئی کے گالوں کے پیچھے کوئی چمکتا ہوا ستارہ چھپا ہے، جو صرف ان لوگوں کو نظر آتا ہے جن کا دل صاف اور امید سے بھرا ہو-
رانیہ کے گھر کے پاس ہی ایک پرانا قبرستان تھا۔ دوسرے بچے وہاں جانے سے ڈرتے تھے، لیکن رانیہ کو وہاں ایک عجیب سکون ملتا تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے خاموش قبریں اسے پرانی کہانیاں سنا رہی ہوں۔ ایک دن، جب وہ قبرستان میں گھوم رہی تھی، اس نے ایک پرانی قبر پر ایک چھوٹی سی پیتل کی تختی دیکھی۔ اس پر ایک نام کندہ تھا: "سلمان، ایک ایسا ستارہ جو بادلوں کے پیچھے چھپ گیا۔"
![]() |
سلمان کی قبر |
رانیہ کا دل دھڑک اٹھا۔ کیا یہ وہی ستارہ تھا جس کی وہ تلاش میں تھی؟ اس نے تختی کو صاف کیا اور اس پر بنے ہوئے مدھم نقش کو چھوا۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کی انگلیوں سے کوئی سرد لہر گزری ہو۔
اس دن سے، رانیہ ہر شام اس قبر پر جاتی۔ وہ وہاں گھنٹوں بیٹھی رہتی، آسمان کو دیکھتی اور سلمان سے باتیں کرتی ـ
وہ اپنے تصورات بیان کرتی اور اس تارے کی جستجو کرتی جو اسے بادلوں کے اُس پار تنہاں دکھائی دیتا تھا۔
محلے کے لوگ رانیہ کو قبرستان میں دیکھ کر پریشان ہوتے تھے۔ وہ اسے ڈراتے تھے کہ وہاں بھوت پریت ہوتے ہیں، لیکن رانیہ کو کسی چیز کا ڈر نہیں تھا۔
ایک سرد شام، جب آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا میں اداسی رچی ہوئی تھی، رانیہ حسبِ معمول سلمان کی قبر پر گئی۔ وہ بہت اداس تھی کیونکہ اس کی پیاری دادی بیمار تھیں۔ اس نے قبر کی تختی پر اپنا سر رکھا اور آنسو بہانے لگی۔
"سلمان، کیا تم سن رہے ہو؟ میری دادی بہت بیمار ہیں۔ کیا کوئی ایسا ستارہ نہیں جو ان کی تکلیف دور کر سکے؟ کیا کوئی ایسی روشنی نہیں جو اندھیرے کو ختم کر دے؟"
رانیہ روتے روتے تھک گئی اور وہیں قبر کے پاس سو گئی۔ آدھی رات کو، اسے ایک مدھم سی روشنی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ قبر کے اوپر ایک ہلکا سا نور چمک رہا ہے۔ یہ نور اتنا نرم اور پرسکون تھا کہ رانیہ کا سارا ڈر ختم ہو گیا۔
روشنی آہستہ آہستہ ایک انسانی شکل اختیار کر گئی۔ رانیہ نے غور سے دیکھا تو اسے ایک نوجوان لڑکا دکھائی دیا جس کے چہرے پر ایک اداس مسکراہٹ تھی۔
"تم... تم سلمان ہو؟" رانیہ نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
لڑکے نے سر ہلایا۔ "ہاں، رانیہ۔ میں نے تمہاری آواز سنی۔ تمہارا دل بہت صاف ہے اور تمہاری امید بہت مضبوط ہے۔ اسی لیے تم مجھے دیکھ سکتی ہو۔"
"وہ ستارہ... جو بادلوں کے پیچھے ہے؟" رانیہ نے پوچھا۔
سلمان نے آسمان کی طرف دیکھا۔ "وہ ستارہ ہر اس دل میں چمکتا ہے جو امید نہیں چھوڑتا۔ یہ ان لوگوں کی روشنی ہے جو مشکل وقت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ تمہاری دادی کی تکلیف بھی دور ہو جائے گی، رانیہ۔ بس اپنی امید کو قائم رکھنا۔"
سلمان کی باتیں سن کر رانیہ کے دل میں ایک نئی طاقت آ گئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
صبح جب رانیہ کی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو رہا تھا۔ قبر پر کوئی روشنی نہیں تھی اور سلمان بھی غائب ہو چکا تھا۔ لیکن رانیہ کا دل ایک عجیب سکون سے بھرا ہوا تھا۔ وہ تیزی سے گھر کی طرف بھاگی۔
![]() |
گاؤں |
گھر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ اس کی دادی جاگ رہی ہیں اور ان کے چہرے پر پہلے سے زیادہ رونق ہے۔ وہ مسکرا رہی تھیں۔
"رانیہ، میری پیاری بچی، تم کہاں غائب تھی؟ مجھے ایسا لگا جیسے رات کوئی فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور مجھے شفا دے گیا ہو۔"
رانیہ نے اپنی دادی کو گلے لگا لیا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ فرشتہ کون تھا۔ وہ بادلوں کے پیچھے کا ستارہ تھا، جو امید اور یقین کی روشنی لے کر آیا تھا۔
اس دن کے بعد، رانیہ نے کبھی بھی قبرستان جانا نہیں چھوڑا۔ وہ جانتی تھی کہ سلمان اب بادلوں کے پیچھے کا ستارہ بن چکا ہے، لیکن اس کی روشنی ہمیشہ اس کے دل میں رہے گی۔ اور جب بھی وہ آسمان پر بادل دیکھتی، اسے یقین ہوتا کہ ان کے پیچھے ایک ایسا ستارہ ضرور چمک رہا ہے جو کبھی نہیں بجھتا – امید کا ستارہ، یقین کا ستارہ، محبت کا ستارہ۔ یہ کہانی رانیہ کے دل میں ہمیشہ زندہ رہی اور اسے یاد دلاتی رہی کہ اندھیرے میں بھی روشنی کی ایک کرن ضرور موجود ہوتی ہے، اگر ہم اسے محسوس کرنے کی کوشش کریں
اخلاقی سبق :
کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ امید کو تھامے رکھنا اور دل میں یقین رکھنا تاریک ترین لمحات میں بھی روشنی کی راہ دکھا سکتا ہے، اور محبت ایک ایسی طاقت ہے جو وقت اور موت کی حدود سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔