سونے کی تلاش اور الو کی نصیحت

Immo Kahani
0


" سونے کی تلاش اور الو کی نصیحت"


ایک گاؤں میں دو دوست رہتے تھے، سلیم اور کریم۔ سلیم تھوڑا سادہ لوح اور ہر بات پر یقین کرنے والا تھا، جبکہ کریم کافی چالاک اور موقع پرست تھا۔ ایک دن دونوں جنگل سے گزر رہے تھے تو انہیں ایک بڑا سا الو ایک درخت پر بیٹھا دکھائی دیا۔


الو کی نصیحت 


کریم نے سلیم کو کہنا شروع کیا،

 

"سنا ہے الو بہت دانا ہوتے ہیں، ان سے مشورہ کرنا چاہیے۔"


سلیم نے فوراً سر ہلایا،


 "ہاں یار، کیوں نہیں؟ چلو پوچھتے ہیں۔"


دونوں درخت کے نیچے پہنچے اور الو کو سلام کیا۔ کریم نے آگے بڑھ کر کہا،


 "اے دانا الو، ہم ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ کیا آپ ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں؟"


الو نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں اور ایک گہری "ہوووو" کی

 آواز نکالی۔ سلیم تو الو کی آواز سن کر ہی مرعوب ہو گیا۔

کریم نے اپنی بات جاری رکھی، 


"دراصل، ہم دونوں جلدی امیر ہونا چاہتے ہیں۔ کوئی ایسا طریقہ بتائیں جس سے راتوں رات دولت مند ہو جائیں۔"


الو نے کچھ دیر سوچا، پھر اپنی گردن گھما کر بولا،


 "تم دونوں ایک کام کرو۔ گاؤں جاؤ اور جس کے گھر کی چھت پر سب سے زیادہ گھاس اگائی ہوئی ہو، اس کے گھر کا سارا سونا چرا لو۔ وہ اتنا بے وقوف ہوگا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا۔"


سلیم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔


 "واہ! یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔"


کریم نے الو کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھا، لیکن کچھ بولا نہیں۔

اگلی رات، دونوں گاؤں پہنچے۔ سلیم ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا،


 "دیکھو کریم، اس گھر کی چھت پر تو واقعی بہت گھاس اگائی ہوئی ہے!"


چھت پر گھاس 

کریم نے غور سے دیکھا۔ واقعی اس گھر کی چھت پر گھاس کا ایک چھوٹا سا باغ بنا ہوا تھا۔ دراصل، اس گھر کا مالک ایک شوقین باغبان تھا اور اس نے اپنی چھت پر خاص طور پر گھاس اور چھوٹے پودے لگائے ہوئے تھے۔

سلیم پرجوش ہو کر بولا،


 "چلو، یہی وہ گھر ہے!"


کریم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا،


 "ارے رکو! کیا تمہیں واقعی لگتا ہے کہ جس نے اپنی چھت پر اتنا شوق سے گھاس اگائی ہو گی، اس کے پاس سونا ہو گا؟ اور اگر ہوا بھی تو کیا وہ اتنا بے وقوف لگے گا کہ اسے چوری کا پتہ نہ چلے؟ مجھے تو یہ الو کی بات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔"


سلیم نے ضد کی، 


"نہیں یار، الو دانا ہوتے ہیں، انہوں نے ضرور سوچ سمجھ کر ہی کہا ہو گا۔"


بالآخر سلیم اکیلا اس گھر میں گھس گیا۔ اس نے چھت پر چڑھ کر ادھر ادھر دیکھا، لیکن سونے کا تو کیا، اسے ایک حبہ بھی نہ ملا۔ البتہ، چھت پر کام کرتے ہوئے اس نے کچھ گملے ضرور توڑ دیے۔

گھر کے مالک نے شور سن کر چور چور کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔ سلیم گھبرا کر نیچے اترا اور بھاگنے لگا۔ گاؤں والوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب ما را ـ

کریم دور سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ جب سلیم پٹ کر فارغ ہوا تو کریم اس کے پاس گیا۔

کریم نے ہنستے ہوئے کہا،


 "کیوں سلیم، کیسا رہا الو کا مشورہ؟ ملا کچھ سونا یا صرف گھاس ہی ملی؟"


سلیم نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے کریم کو دیکھا اور بولا،


"یار، مجھے لگتا ہے وہ الو دانا نہیں، خالص بے وقوف تھا۔ اور اس سے بھی بڑا بے وقوف تو میں ہوں جو اس کی باتوں میں آ گیا۔"


کریم نے سلیم کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہنستے ہوئے بولا، "چلو کوئی بات نہیں، اس واقعے سے تمہیں ایک سبق تو مل گیا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر 'ہوووو' کی آواز میں دانائی نہیں چھپی ہوتی۔"

اور اس دن کے بعد سلیم نے ہر کسی کے مشورے پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا چھوڑ دیا، خاص طور پر جنگل کے الوؤں کے مشوروں پر !


 اخلاقی سبق:

ظاہری شکل پر مت جائیں۔ الو کی پروقار شکل اور گہری آواز اس کی دانائی کی ضمانت نہیں تھی۔لہٰذا، ہمیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں، بجائے اس کے کہ ہم کسی بھی غیر معتبر ذریعہ یا محض لالچ کی بنیاد پر عمل کریں۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !