تا ر ا اور صدیوں پرانا ر ا ز

Immo Kahani
0


"تا ر ا اور صدیوں پرانا  ر ا ز "



دور افتادہ پہاڑوں کے دامن میں، ایک چھوٹا سا گاؤں بسا ہوا تھا۔ یہ گاؤں اپنی خوبصورتی اور پرسکون ماحول کے لیے جانا جاتا تھا، لیکن اس کے لوگ ایک گہرے راز سے ناواقف تھے۔ گاؤں کے بیچ میں ایک قدیم کنواں تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں صدیوں پرانا ایک طلسم چھپا ہوا ہے۔ گاؤں والے اس کنویں سے اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے پانی بھرتے تھے، لیکن کبھی کسی نے اس کی گہرائی یا اس کے ممکنہ راز کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
گاؤں میں ایک نوجوان لڑکی رہتی تھی، جس کا نام تارا تھا۔ وہ ایک ذہین اور تجسس سے بھرپور لڑکی تھی، جس کی آنکھوں میں ہمیشہ کچھ نیا جاننے کی چمک موجود رہتی تھی۔ بچپن سے ہی اس نے گاؤں کے بزرگوں سے کئی کہانیاں سنی تھیں، جن میں اس پراسرار کنویں کا ذکر بھی شامل تھا۔ ان کہانیوں نے اس کے دل میں اس کنویں کے راز کو جاننے کی ایک گہری خواہش پیدا کر دی تھی۔


کنویں کا راز


ایک دن، تارا نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کنویں کی گہرائی میں اتر کر اس کے راز سے پردہ اٹھائے گی۔ اس نے اپنے ارادے کا ذکر اپنے والدین سے کیا، جو شروع میں اس کی حفاظت کے پیش نظر پریشان ہوئے، لیکن تارا کے پختہ عزم کو دیکھ کر انہیں ماننا پڑا۔اس کے آگے دن تارا نے کنویں میں جانے کی اپنی پوری تیاری شروع کر دی- تارا نے بسم اللہ کہہ کر کنویں میں اترنا شروع کیا۔
کنویں کے اندر اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا اور ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تارا نے اپنی لالٹین روشن کی، جس کی مدھم روشنی کنویں کی دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ جیسے جیسے وہ نیچے اترتی گئی، ہوا میں نمی بڑھتی گئی اور ایک ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔
کنویں کی تہہ میں اترنے کے بعد، تارا نے اپنے آپ کو ایک وسیع و عریض غار میں محسوس کیا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جس کا وجود غالباً کسی زمانے میں قدرتی طور پر ہوا تھا۔
لیکن اس کے اندر کچھ ایسی چیزیں موجود تھیں جو اسے عام غاروں سے مختلف بناتی تھیں۔ غار کی دیواروں پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے ہوئے تھے، جو کسی قدیم تہذیب کی یاد دلاتے تھے۔
تارا نے اپنی لالٹین کی روشنی میں غار کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ایک طرف اسے ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہوئی نظر آئی، جس کا پانی بالکل صاف اور شفاف تھا۔ دوسری طرف، اسے کچھ پرانے برتن اور اوزار پڑے ہوئے ملے، جو اس بات کا ثبوت تھے کہ کبھی یہاں انسان بھی آباد رہے ہوـ
اچانک، تارا کی نظر غار کے ایک کونے پر پڑی، جہاں ایک چمکدار چیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ احتیاط سے اس طرف بڑھی اور دیکھا کہ یہ ایک صندوق تھا۔ صندوق پر قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے اور اس کی سطح پر بھی وہی پراسرار نقش و نگار بنے ہوئے تھے جو غار کی دیواروں پر تھے۔
تارا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے یقین ہو گیا کہ یہی وہ راز ہے جس کی تلاش میں وہ یہاں آئی تھی۔ اس نے صندوق کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ بند تھا۔ کافی کوشش کے بعد بھی جب صندوق نہ کھلا، تو وہ مایوس ہو گئی۔
اسی لمحے، اس نے غار کی دیوار پر بنے ہوئے ایک خاص نقش کو غور سے دیکھا۔ اسے لگا کہ یہ نقش کسی طرح اس صندوق سے منسلک ہے۔ اس نے نقش کو چھوا ۔ اچانک، غار میں ایک مدھم روشنی پھیل گئی اور صندوق خود بخود کھل گیا۔
صندوق کے اندر ایک قدیم کتاب رکھی ہوئی تھی۔ کتاب کے صفحات بوسیدہ ہو چکے تھے، لیکن اس پر لکھی ہوئی تحریر ابھی بھی واضح تھی۔ تارا نے احتیاط سے کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔


کتا ب


کتاب میں اس گاؤں اور اس کنویں کی تاریخ درج تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ صدیوں پہلے یہاں ایک ترقی یافتہ تہذیب آباد تھی، جو علم اور حکمت میں بہت آگے تھی۔ اس تہذیب کے لوگوں نے اس کنویں کو ایک خاص مقصد کے لیے بنایا تھا اور اس صندوق میں اپنی تمام تر دانش اور تجربات کو محفوظ کر دیا تھا۔
کتاب میں ایک ایسی روشنی کا بھی ذکر تھا، جو اس تہذیب کے لوگوں کے لیے علم اور روحانیت کا سرچشمہ تھی۔ یہ روشنی کسی عام جگہ پر موجود نہیں تھی، بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک خاص راستے پر چلنا پڑتا تھا۔ کتاب میں اس راستے کا نقشہ اور اس روشنی تک پہنچنے کا طریقہ بھی درج تھا۔
تارا یہ سب پڑھ کر حیران رہ گئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا گاؤں صرف ایک خوبصورت جگہ ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم تاریخی ورثے کا امین بھی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس روشنی کی تلاش کرے گی اور اپنے گاؤں والوں کو اس کے بارے میں بتائے گی۔
اگلے روز، تارا نے گاؤں لوٹ کر اس غار اور کتاب کے متعلق سب کو آگاہ کیا۔ ابتدا میں کسی نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا، لیکن جب تارا نے.
 کتاب کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے اور غار کے نقش و نگار کی تفصیل بتائی، تو لوگ حیران رہ گئے۔
گاؤں کے بزرگوں اور دانشوروں نے مل کر کتاب کا مطالعہ کیا اور اس روشنی تک پہنچنے کے راستے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ کافی غور و فکر کے بعد، انہیں اندازہ ہوا کہ کتاب میں درج نقشہ گاؤں کے آس پاس کے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
تارا کی قیادت میں، گاؤں کے کچھ بہادر اور پرعزم نوجوانوں کا ایک گروہ اس روشنی کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے کئی دن اور راتیں پہاڑوں میں سفر کیا، مشکل راستوں کو عبور کیا اور کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کیا۔
بالآخر، کتاب میں درج نشانیوں کی مدد سے، وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں ایک غار کا دہانہ نظر آ رہا تھا۔ یہ غار پہلے والے غار سے بھی زیادہ پراسرار اور خاموش تھا۔ جب وہ غار کے اندر داخل ہوئے، تو انہیں ایک مدھم روشنی نظر آئی جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی۔


غا ر

غار کے آخر میں، انہوں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ وہاں ایک بڑا سا کرسٹل موجود تھا، جس میں سے ایک نورانی روشنی نکل رہی تھی۔ یہ روشنی اتنی پرسکون اور طاقتور تھی کہ اسے دیکھتے ہی دل میں ایک عجیب سا سکون اور علم کا احساس ہونے لگا۔
تارا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ یہی وہ روشنی ہے جس کا ذکر کتاب میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس روشنی کے سامنے سر جھکایا اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا۔
جب وہ گاؤں واپس آئے، تو انہوں نے اس روشنی اور اس کتاب کے علم کو سب کے ساتھ بانٹا۔ اس کے بعد سے، گاؤں والوں کا طرز زندگی بدل گیا۔ انہوں نے علم کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی قدیم تہذیب کے ورثے کا احترام کرنا شروع کر دیا۔وہ روشنی ہر سال ایک مخصوص وقت پر اس غار میں نمودار ہوتی تھی، اور گاؤں کے لوگ وہاں اکٹھے ہو کر اس سے روحانی اور علمی فائدہ اٹھاتے تھے۔
تارا، جس نے اپنی جستجو اور ہمت سے ایک گمشدہ راز کو بے نقاب کیا تھا، گاؤں میں ایک ہیرو کی طرح دیکھی جانے لگی۔ 


اخلاقی سبق:


تارا نے اکیلے راز جاننے کے بجائے اسے اپنے گاؤں والوں کے ساتھ بانٹا، جس سے سب کو فائدہ ہوا۔ علم کو بانٹنے سے اس کی قدر اور اہمیت بڑھتی ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !