" سونے کا صندوق اور ایماندار لکڑ ہا ر ا"
بات پرانے زمانے کی ہے، کسی دور افتادہ گاؤں میں ایک غریب لکڑہارا رہتا تھا۔ وہ ہر روز جنگل جاتا اور لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچ آتا، جس سے اس کے گھر کا خرچہ بمشکل چلتا تھا۔ وہ ایماندار اور محنتی آدمی تھا، لیکن غربت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔
ایک دن لکڑہا را حسبِ معمول جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا-
![]() |
لکڑ ہا ر ا |
گرمی کی شدت بہت زیادہ تھی اور وہ پسینے میں شرابور تھا۔ جب وہ ایک گھنے درخت کے سائے میں سستانے بیٹھا تو اسے دور سے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ آواز ایک بچے کی لگ رہی تھی۔
لکڑہارے نے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھا تو اسے ایک چھوٹا سا بچہ ایک جھاڑی کے پاس بیٹھا زار و قطار روتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ فوراً اس کے پاس گیا اور پیار سے پوچھا، "بیٹا، کیا ہوا؟ کیوں رو رہے ہو؟"
![]() |
بچہ |
بچے نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ وہ جنگل میں راستہ بھٹک گیا ہے اور اسے اپنے گھر کا راستہ یاد نہیں رہا۔ وہ بہت ڈرا ہوا اور بھوکا بھی تھا۔
لکڑہارے کا دل بچے کی حالت دیکھ کر بھر آیا۔ اس نے بچے کو تسلی دی اور کہا، "گھبراؤ نہیں بیٹا، میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں گا۔ پہلے کچھ کھا لو۔" یہ کہہ کر اس نے اپنی روٹی میں سے آدھی بچے کو دے دی۔
بچے نے بھوک سے بے تاب ہو کر روٹی کھائی اور کچھ دیر میں اس کا ڈر کم ہو گیا۔ لکڑہارے نے پھر پوچھا، "تمہارا نام کیا ہے بیٹا؟ اور تمہارا گھر کہاں ہے؟"
بچے نے اپنا نام علی بتایا اور اپنے گاؤں کا نام بھی بتایا، جو جنگل سے کافی دور تھا۔ لکڑہارے کو معلوم تھا کہ وہ گاؤں یہاں سے پیدل چل کر کئی گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔
اس نے علی سے کہا، "دیکھو بیٹا، تمہارا گاؤں یہاں سے بہت دور ہے۔ آج تو شام ہو گئی ہے۔ تم میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ صبح میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا۔"
علی راضی ہو گیا اور لکڑہارا اسے اپنے جھونپڑے میں لے آیا۔ لکڑہارے کی بیوی نے بھی علی کو دیکھ کر بہت پیار کیا اور اسے کھانا کھلایا۔ علی نے رات لکڑہارے کے گھر پر آرام سے گزاری۔
اگلی صبح لکڑہارا علی کو اس کے گاؤں لے جانے کے لیے تیار ہوا۔ اس کی بیوی نے علی کے لیے کچھ کھانا اور پانی باندھ دیا۔ جب وہ روانہ ہونے لگے تو لکڑہارے کی بیوی نے اسے ایک پرانی لیکن صاف قمیض بھی دی تاکہ راستے میں علی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
لکڑہارا اور علی پیدل ہی سفر پر نکل پڑے۔ جنگل کے دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے وہ کئی گھنٹوں تک چلتے رہے۔ گرمی بہت تھی لیکن لکڑہارے نے علی کا حوصلہ بڑھائے رکھا۔
آخر کار وہ علی کے گاؤں پہنچ گئے۔ علی اپنے گاؤں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ لکڑہارا بھی اس کی خوشی دیکھ کر مطمئن ہوا۔
جب علی اپنے گھر پہنچا تو اس کے والدین اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور لکڑہارے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے لکڑہارے کو انعام کے طور پر کچھ پیسے بھی دینے کی کوشش کی، لیکن لکڑہارے نے لینے سے انکار کر دیا۔
اس نے کہا، "میں نے تو صرف ایک انسانی فرض ادا کیا ہے۔ مجھے کسی انعام کی ضرورت نہیں۔" یہ کہہ کر لکڑہارا واپس اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔
اس واقعے کے بعد لکڑہارے کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آئی۔ ایک دن جب وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا تو اسے ایک پرانا صندوق ملا۔ صندوق میں سونے کے سکے بھرے ہوئے تھے-
![]() |
سونے کا صندوق |
۔ لکڑہارا ایماندار آدمی تھا، اس نے سوچا کہ یہ کسی کا کھویا ہوا مال ہوگا اور اسے واپس کرنا چاہیے۔
وہ صندوق لے کر گاؤں کے سردار کے پاس گیا اور سارا ماجرا سنایا۔ سردار لکڑہارے کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس صندوق کو پہچانتا ہے۔ لکڑہارے نے انکار کر دیا۔
کچھ دنوں بعد گاؤں میں خبر پھیلی کہ کسی تاجر کا سونے سے بھرا صندوق جنگل میں گم ہو گیا ہے۔ لکڑہارے نے فوراً سردار کو بتایا کہ اسے ایسا ہی ایک صندوق ملا ہے۔ تاجر کو جب اپنا صندوق واپس ملا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے لکڑہارے کو انعام کے طور پر بہت سارے پیسے دیے۔
اب لکڑہارا غریب نہیں رہا تھا۔ اس کی ایمانداری اور نیکی نے اسے دولت مند بنا دیا تھا۔ گاؤں کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے اور اسے ایک نیک دل انسان کے طور پر یادرکھتے تھے۔
اخلاقی سبق:
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اگر ہم خلوص دل سے دوسروں کی مدد کریں تو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح ہمیں اس کا اجر ضرور دیتا ہے۔ ایمانداری اور محنت کامیابی کی کنجی ہیں اور مصیبت میں صبر اور استقلال سے کام لینا چاہیے-
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ReplyDelete