"ڈائنوسارز کا اچانک خاتمہ"
تقریباً 66 ملین سال قبل ہماری زمین پر ڈائنوسارز کا دور عروج پر تھا۔ یہ دیو ہیکل جاندار لاکھوں سالوں سے خشکی، پانی اور فضا میں اپنی حکمرانی قائم کیے ہوئے تھے۔ ٹائرینوسورس ریکس جیسے خونخوار شکاری جنگلوں میں دہشت پھیلائے ہوئے تھے، جبکہ لمبے قد والے سوروپوڈز بڑے ریوڑ کی شکل میں گھاس چرتے تھے۔
![]() |
لمبے قد والے سوروپوڈز |
آسمانوں میں ٹیریگوسارز پرواز کرتے اور سمندروں میں موساسورس جیسے آبی رینگنے والے جانوروں کا راج تھا۔ مگر پھر اچانک ایک خوفناک واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی پوری سلطنت کو تہس نہس کر دیا اور زمین پر زندگی کا دھارا ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
ڈائنوسارز کے خاتمے کی سب سے مستند سائنسی تھیوری ایک ہولناک کائناتی تصادم کی وضاحت کرتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تقریباً 10 سے 15 کلومیٹر قطر کا ایک بہت بڑا سیارچہ (asteroid) موجودہ میکسیکو کے یوکاٹن جزیرہ نما کے قریب زمین سے ٹکرایا۔ اس سیارچے کے ٹکرانے سے ایک ناقابلِ تصور دھماکا ہوا، جس کی شدت لاکھوں ایٹمی دھماکوں سے زیادہ تھی۔ اس تصادم نے نہ صرف ایک بہت بڑا گڑھا (جسے Chicxulub crater کہا جاتا ہے) بنایا، بلکہ اس نے زمین پر تباہی کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس سے بچنا تقریباً ناممکن تھا۔
ابتدا میں، تصادم کے مقام سے شدید زلزلے اور سونامی کی بلند لہریں اٹھیں جنہوں نے ہزاروں کلومیٹر تک ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
![]() |
سونامی کی بلند لہریں |
آسمان سے آگ کے گولے برسنے لگے، یہ دراصل تصادم سے اڑنے والے چٹانوں کے ٹکڑے تھے جو فضا کی رگڑ سے آگ پکڑ چکے تھے۔ ان آگ کے گولوں نے بڑے پیمانے پر جنگلات کو جلا دیا، جس کے نتیجے میں ماحول میں بھاری مقدار میں دھواں اور راکھ پھیل گئی۔
اگلے مرحلے میں، زمین کا موسمیاتی نظام شدید متاثر ہوا۔ تصادم سے بلند ہونے والی راکھ اور دھول کے باریک ذرات نے پوری زمین کے گرد ایک گھنی چادر بنا دی، جس نے سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک طویل اور سخت "نیوکلیئر سرمائی" دور شروع ہوا، جس میں درجہ حرارت تیزی سے گر گیا۔ پودے، جو ضیائی تالیف (photosynthesis) کے لیے سورج کی روشنی پر منحصر ہوتے ہیں، ختم ہونے لگے، جس سے پوری غذائی زنجیر (food chain) متاثر ہوئی۔ سبزی خور ڈائنوسارز کو خوراک نہ ملی، اور ان پر انحصار کرنے والے گوشت خور ڈائنوسارز بھی بھوک سے مرنے لگے۔
اس کے علاوہ، تصادم نے فضا میں سلفر اور دیگر زہریلی گیسیں بھی خارج کیں، جس سے تیزابی بارشیں ہوئیں جنہوں نے نباتات اور آبی حیات کو مزید نقصان پہنچایا۔ سمندروں میں بھی تیزابیت بڑھ گئی، جس نے کئی سمندری مخلوقات کو متاثر کیا۔
ڈائنوسارز کے ساتھ ساتھ، زمین پر موجود نباتاتی اور حیوانی حیات کی تقریباً 75 فیصد انواع معدوم ہو گئیں۔ تاہم، کچھ جاندار اس قیامت سے بچنے میں کامیاب رہے، جیسے کہ چھوٹے ممالیہ جانور، پرندے (جو دراصل ڈائنوسارز کی ہی ایک نسل ہیں)، کچھ رینگنے والے جانور اور آبی حیات۔ یہ جاندار زیر زمین، یا پانی کے اندر، یا ایسی جگہوں پر پناہ لینے میں کامیاب رہے جہاں انہیں ابتدائی تباہی کا کم سامنا کرنا پڑا۔
تباہی سے ارتقاء کا نیا راستہ
ڈائنوسارز کا خاتمہ ایک عظیم سانحہ تھا، لیکن یہ زندگی کے ارتقاء میں ایک نیا موڑ بھی ثابت ہوا۔ ان کے معدوم ہونے کے بعد، کرہ ارض پر ایک "خالی جگہ" پیدا ہوئی جسے ممالیہ جانوروں نے پر کیا۔ ممالیہ جانور، جو پہلے ڈائنوسارز کے زیر سایہ چھپ کر رہتے تھے، اب کھل کر ارتقائی عمل سے گزرے اور پھلے پھولے، جس کے نتیجے میں بالآخر ہماری اپنی نسل یعنی انسان کا ظہور ہوا۔
آج، ڈائنوسارز کی باقیات اور اس کائناتی تصادم کے ثبوت ہمیں زمین کی تاریخ کے اس اہم باب کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ کس طرح کائناتی واقعات ہمارے سیارے پر زندگی کے دھارے کو یکسر بدل سکتے ہیں، اور کیسے ایک بڑی تباہی بھی نئے ارتقائی امکانات کو جنم دے سکتی ہے۔ ڈائنوسارز کا خاتمہ صرف ایک نسل کا انجام نہیں تھا، بلکہ یہ ایک نئے عہد کا آغاز تھا، جہاں زندگی نے ایک مختلف شکل میں دوبارہ جنم لیا اور ارتقاء کے نئے راستوں پر گامزن ہوئی۔
Wahoo amazing 😍🤩 story
ReplyDelete