گمشدہ شہر کا راز

Immo Kahani
1

 

گمشدہ شہر کا راز

زین ایک نوجوان تاریخ دان تھا جس کی زندگی کا واحد مقصد قدیم تہذیبوں کے کھوئے ہوئے رازوں کو کھولنا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پرانی کتابوں اور نقشوں کو پڑھتے ہوئے گزارا تھا۔ اس کا سب سے بڑا خواب ایک ایسے شہر کو دریافت کرنا تھا جس کا ذکر صرف کہانیوں اور افسانوی داستانوں میں ملتا تھا۔ یہ شہر، جس کا نام "امبرین" تھا، سونے اور جواہرات سے مزین تھا، اور اس کے باسیوں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ وقت کو تھما دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک دن، زین کو ایک پرانے بازار میں ایک بزرگ سے ایک نہایت عجیب و غریب نقشہ ملا۔ یہ نقشہ کسی عام کاغذ پر نہیں بلکہ چمڑے پر بنایا گیا تھا جس پر ایسے نشانات تھے جو زین نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس نقشے میں ایک ایسی جگہ کی نشاندہی کی گئی تھی جو جدید دنیا کے کسی نقشے پر موجود نہیں تھی۔ زین کو یقین تھا کہ یہ وہی راستہ ہے جو امبرین کی طرف جاتا ہے۔


نقشہ

زین نے اپنے دوست، عمار، کو یہ بات بتائی۔ عمار ایک ماہر کوہ پیما اور فوٹوگرافر تھا۔ وہ زین کی باتوں پر پہلے تو ہنسا، لیکن جب اس نے چمڑے کا نقشہ دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ دونوں مل کر اس سفر پر نکلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

سفر کا آغاز ایک گھنے جنگل سے ہوا۔ راستے میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک رات، جب وہ ایک غار میں سو رہے تھے، تو اچانک ایک شدید طوفان آیا۔ طوفان اتنا خوفناک تھا کہ انہیں لگا کہ وہ اس سے بچ نہیں پائیں گے۔ لیکن صبح جب وہ اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ طوفان کی وجہ سے زمین پر ایک دراڑ پڑ گئی تھی جس سے ایک قدیم سرنگ کا راستہ کھل گیا تھا۔

نقشے میں بھی اسی سرنگ کا ذکر تھا۔ وہ دونوں اس سرنگ میں داخل ہو گئے، جو اندر سے بہت تنگ اور اندھیری تھی۔ وہ کئی گھنٹوں تک چلتے رہے اور آخر کار ایک بہت بڑے دروازے پر پہنچے جو پتھر کا بنا ہوا تھا۔ دروازے پر کچھ ایسی تحریریں لکھی ہوئی تھیں جو زین نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھیں۔ زین نے بڑی دقت سے انہیں پڑھنا شروع کیا، اور جیسے ہی وہ ختم ہوئے، دروازہ خودبخود کھل گیا۔

اندر داخل ہوتے ہی ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے تھے جہاں کوئی انسان نہیں تھا، لیکن ہر طرف روشنی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے ہر چیز سونے سے بنی ہوئی ہے۔ عمارتیں، سڑکیں، اور یہاں تک کہ درختوں کے پتے بھی سنہری تھے۔

زین اور عمار نے شہر میں گھومنا شروع کیا۔ شہر کی خوبصورتی دیکھ کر وہ حیران تھے، مگر یہ دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ حیران ہوئے کہ وہاں کوئی انسان موجود نہیں تھا۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ شاید وہ امبرین نامی شہر میں پہنچ گئے ہیں۔

امبرین نامی شہر

 جب وہ ایک بڑے محل میں داخل ہوئے تو انہیں ایک بڑے ہال میں ایک بزرگ نظر آیا جو ایک تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک سنہری گھڑی تھی۔

بزرگ نے ان سے کہا کہ "میں اس شہر کا آخری باشندہ ہوں اور میں تم دونوں کا یہاں صدیوں سے انتظار کر رہا ہوں۔ یہ شہر دراصل وقت کے قیدیوں کا شہر ہے۔ اس شہر کو اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں کے لوگ وقت کو اپنی مرضی سے روک سکتے تھے۔ لیکن اس طاقت کا غلط استعمال ہوا اور لوگوں نے ہمیشہ کے لئے وقت کو روک دیا، جس کے نتیجے میں وہ پتھر کے بن گئے اور ان کے جسم ان ہی جگہوں پر جم گئے جہاں انہوں نے وقت کو روکا تھا۔"

بزرگ نے بتایا کہ "یہ گھڑی وہ واحد چیز ہے جو وقت کو دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔ لیکن میں اب بہت کمزور ہو چکا ہوں اور میں اسے نہیں چلا سکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں وقت کو دوبارہ شروع کرو اور اس شہر کے لوگوں کو زندگی واپس دو۔ زين اور عمار کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں معلوم ہوا کہ جس شہر کی داستانیں وہ صرف سنی سنائی باتیں سمجھتے تھے، وہ حقیقتاً موجود تھا۔ عمار نے فوراً سوال کیا، "کیا یہ سچ ہے؟"

اگر ہم وقت کو دوبارہ سے چلا دیں تو کیا اس سے کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟"

بزرگ نے جواب دیا کہ "نہیں، بلکہ یہ انسانوں کی خدمت ہوگی۔ لیکن یاد رکھو کہ ایک بار وقت شروع ہو گیا تو تم دونوں ہمیشہ کے لئے یہاں قید ہو جاؤ گے۔ اس لئے تمہیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔"

زین اور عمار نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فوراً ایک ہی فیصلہ کیا۔ وہ اس شہر کے لوگوں کو زندگی واپس دینا چاہتے تھے۔ زین نے گھڑی لی اور اس کو چلانے لگا۔ جیسے ہی گھڑی چلی، ایک تیز روشنی پورے شہر میں پھیل گئی اور ہر طرف سے لوگوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔




گھڑی

لوگ حیران تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ ایک دم سے زندگی میں واپس آ گئے تھے اور ان کے چہروں پر خوشی کے تاثرات تھے۔ انہوں نے زین اور عمار کا شکریہ ادا کیا اور ان کی عزت کی۔

زین اور عمار اس شہر میں ہمیشہ کے لئے قید ہو گئے تھے، لیکن انہیں اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ایسے شہر کو نئی زندگی بخشی تھی جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ دونوں اس شہر میں خوشی سے رہنے لگے۔

زین نے اپنی زندگی میں جو بھی خواب دیکھا تھا، وہ پورا ہو گیا تھا۔ اس نے ایک گمشدہ شہر کو دریافت کیا تھا اور اسے ایک نئی زندگی دی تھی۔ اس کی کہانی اب ایک نئی تاریخ بن چکی تھی، جو آنے والی نسلوں کو یاد دلاتی تھی کہ انسان اگر سچے دل سے چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔

اخلاقی سبق:

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب ہم کچھ نیا کرنے کی ٹھان لیں تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہوتی ہے۔

سوالات:

 * کیا آپ کے خیال میں زین اور عمار کا اپنے دوستوں اور خاندان کی قربانی دے کر، امبرین کے لوگوں کو زندگی بخشنا درست فیصلہ تھا؟🤔

 * کہانی کے اختتام پر، جب زین اور عمار امبرین میں ہمیشہ کے لیے قید ہو جاتے ہیں، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ خوش ہیں؟🤔

 * "گمشدہ شہر کا راز" میں آپ کو کون سا کردار سب سے زیادہ پسند آیا اور کیوں ؟ اپنی رائے کمنٹ میں بتائیں 👇🥰🥰🥰

مزید معلومات کے لیے دیگر کہانی پڑ ھیں:

عقلمند کوا اور پیاسا ہرن ایک سبق اموز کہانی:

Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !